اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ حکمت عملی کے تحت ہم آگے بڑھیں گے اور تمام سیاسی جماعتیں رابطے میں رہتے ہوئے آئندہ کی حکمت عملی کے لیے مشاورت کر رہی ہیں۔
اسلام آباد میں دھرنے کے شرکا سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جبری تسلط کافر کا ہو یا مسلمان کا اس کیخلاف آواز اٹھانا لازم ہو جاتا ہے۔ ہم نے ناجائز اور جبری طور پر مسلط حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے اپنی تحریک کا نام آزادی مارچ رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا کا انضمام کے دوران سبز باغ دکھائے گئے۔ فاٹا کو ایک ہزار ارب روپیہ دینے کا وعدہ کیا ایک پیسہ نہیں دیا۔ این ایف سی ایوارڈ میں فاٹا کو حصہ دینے کے لیے کوئی صوبہ تیار نہیں ہے۔
جے یو آئی سربراہ نے کہا کہ حکمرانوں کی ملکی معیشت پر توجہ ہی نہیں اور آج اسٹیٹ بینک خسارے میں جا رہا ہے۔ ایک سال میں گندم کی پیداوار میں 30 فیصد کمی آئی۔ کسی طالع آزما کو جمہوریت اور معیشت سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کہتے ہیں کہ گرونانک کے دن بھارت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انھیں شرم آنی چاہیے اور اس طرح پاکستان نہیں چلے گا۔ پاکستان کی شناخت اسلام اور جمہوریت ہے۔ آج ہم نے پاکستان کی اسلامی اور جمہوری شناخت کو زندہ رکھنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نااہلی کا یہ عالم ہے ہمیشہ 9 نومبر کو اقبال ڈے منایا جاتا ہے لیکن اس حکومت نے اقبال ڈے کو گرونانک کا دن بنا دیا۔ اس کے بدلے بھارت نے تحفہ میں بابری مسجد کو ہندوؤں کے حوالے کر دی۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس حکومت کی پشت پر بڑی بڑی طاقتیں ہیں لیکن ہم نے اس کا غرور خاک میں ملا دیا ہے۔ حکمران ذلت اور رسوائی کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر مکھیاں مار رہے ہیں۔ حکمرانوں کو قوم کے مطالبے کو تسلیم کرنا ہوگا۔