امریکی انتخابات ہمیشہ سے ہی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ ساری دنیا کے میڈیا کی نظریں پچھلے چند ماہ سے امریکی انتخابات پر تھیں ۔ اس دفعہ امریکی انتخابات کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ تھی کی ڈیموکریٹس کی طرف سے سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی اہلیہ اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن صدارتی امیدوار تھیں۔ ان کے مد مقابل کردار بھی انتہائی دلچسپ تھا ڈونلڈ ٹرمپ، جس نے اپنے اکھڑ پن، غیر معمولی بیانات اور مخصوس حرکات کی وجہ سے جلد ہی میڈیا کی توجہ حاصل کر لی۔ ہلیری اپنی سابقہ خدمات اور مقبولیت کی وجہ سے اپنی جیت کیلئے مطمعین تھی رہی سہی کسر میڈیا والوں نے پوری کر دی کہ اس بار تو ہلیری آوے ہی آوے ۔ دینا بھر کی فلاحی تنظیمیں، خواتین کے حقوق کی تنظیمیں سب ہلیری کی جیت کو ممکن بنانے کی سعی کر رہی تھیں۔ ایسے میں پاکستانی میڈیا کہاں پیچھے رہنے والا تھا جو بات بات پہ امریکیوں کو یہ باور کرانے میں لگا ہوا تھا کہ تم سے اچھی تو ہماری جمہوریت ہے کہ ہم نے تو مدتوںپہلے ایک خاتون کو اپنا سربراہ بنا لیا تھا۔ امریکیو! تم بھی شرم کھاﺅ اورحقوق نسواں کی پاسداری کرو۔ روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر معروف تجزیہ کاراور اینکر صاحبان ہلیری کی جیت کو یقینی بنا کر اٹھتے تھے۔ مگر کیا کریں کہ یہ امریکہ ہے جہاں ووٹ برادری اور میڈیا کی بنائی ہوئی رائے پر نہیں بلکہ اپنی سوچ کے مطابق ڈالے جاتے ہیں۔ امریکیوں نے اپنی سوچ کا استعمال کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا پینتالیسواں صدر منتخب کر لیا۔ ہلیری کی شکست کے بعد پاکستان میں تجزیہ کاروں کے اگلے چند دنوں میں تبصرے کچھ اس طرح ہو سکتے ہیں۔
میں نے پہلے ہی پروگرام میں کہا تھا کہ ہلیری کی شخصیت کی چکا چوند تو ہے گلیمر بھی ہے مگر امریکی صرف گلیمر نہیں دیکھتے ورنہ وہ اوباما جیسے سیاہ فام کو صدر کیوں بناتے۔ امریکیوں کو طاقت کا خبط ہے آپ نے ان کی ریسلنگ نہیں دیکھی۔ بڑی بڑی گاڑیاں، بڑے بڑے ٹرک اور موٹر سائیکل ان کی پسندیدہ سواریاں ہیں۔ اس لیے وہ صدر بھی ایسا چاہتے ہیں جو دیکھنے میں طاقتور، دبنگ اور منہ پھٹ ہو۔ امریکہ کو دنیا درپردہ ایک عرصے سے خطے کا بدمعاش ہی تصور کرتی ہے۔ اگر بدمعاش ملک کی صدر ایک نازک سی خاتون ہو جو الیکشن مہم کے دوران اپنا وزن ہی نہ سہار سکے تو کیا فائدہ ایسی بدمعاشی کا۔ اس لیے امریکیوں نے ٹرمپ کو صدر کے طور پر منتخب کرنا ہی تھا۔ میں نے امریکی کلچر کا بڑی باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد ہی یہ پیشنگوئی کی تھی کہ ٹرمپ ہی امریکہ کا اگلا صدر ہو گا۔
دیکھیں جی یہ ایک عالمی سوچ ہے کہ لوگ اب جمہوریت سے بے زار ہوتے جا رہے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ جمہوریت کی روح سے جو ثمرات عوام کو منتقل ہونے چاہیں تھے وہ نہیں ہو رہے۔ نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں خاص طور پر امریکیوں میں یہ عدم اعتماد پیدا ہوا کہ جمہوریت ان کی زندگی اور مفادات کا تحفط نہیں کر سکتی یہی وجہ ہے کہ عوام نے مودی، پوتن اور اردگان کو اپنا لیڈر منتخب کیا۔ ٹرمپ کی فتح بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ٹرمپ نے امریکی عوام کو یہ باور کرایا کہ امریکہ دوسرے ملکوں کی جمہوریت کا ٹھیکہ تو لے لیتا ہے مگر یہ جمہوریت امریکی لوگوں کو ان کے حقوق دلانے میں ناکام نظر آتی ہے۔اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ یہ محض انتخابی مہم نہیں ہے یہ ایک تحریک ہے۔اب سمجھنا یہ ہوگا کہ اس تحریک کے پس پردہ حقائق کیا ہیں ۔ کیا ساری دنیا بالخصوص مسلم ممالک کو کسی نئی مشکل میں ڈالیں گے یا انتخابی مہم کے دوران ماری جانے والی بڑھکیںمحض بڑھکیں ہی رہیں گی۔
مجھے اس نتیجے کی توقع نہیں تھی، میں ہی کیا سارا میڈیا چاہے وہ ہمارا ہو یا بین الاقوامی سب ہی ہلیری کی جیت پر متفق تھے۔ ہلیری ایک عرصے سے نہ صرف امریکہ میں بلکہ بین القوامی طور پرایک منجھی ہوئی سیاستدان کے طور پر سامنے آئی تھی۔ بطور وزیر خارجہ ہلیری کی امریکہ کیلئے بہت خدمات ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شہرت غصیلے،منہ پھٹ اور ٹھرکی بڈھے زیادہ نہیں تھی۔ یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کہامریکیوں نے جو خود کو ڈیموکریسی کا علمبردار سمجھتے ہیں کیسے ایک ڈیمو کریٹک خاتون کو نظرانداز کر دیا۔ ہلیری کا رکھ رکھاﺅ، اس کی بات چیت، لب ولہجہ اور اس کی معاملہ فہمی ٹرمپ سے کہیں زیادہ ہے۔ ٹرمپ کو ووٹ دینے والوں نے نہ صرف ایک خاتون کو ہرایا ہے بلکہ ان خواتین کی بھی تضحیک کی ہے جنہوں نے ٹرمپ پر دست دراندازی کا الزام لگایا تھا۔ ٹرمپ کو صدر بنانے کے فیصلے کے بعد یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ امریکیوں کو عورت سے نفرت ہے یا جمہوریت سے۔
آپ کو یاد ہو گا آپ ہی کے شو میں میں نے کہا تھا کہ ٹرمپ مسلم دشمنی کا جو کارڈ کھیل رہا ہے اس فائدہ اسے ضرور ہوگا دیکھ لیں ایسا ہی ہوا۔ حالات بدل گئے ہیں اب جمہوریت کا چورن نہیں بکتا حضور۔ اب اسلام کو گالی دو، مسلمانوں کو قتل کرو اور اپنی انتخابی مہم میں اس کا چرچا کرو تو آپ کامیاب ہو جاﺅ گے۔ مودی کو ہی دیکھ لیں کیاکچھ نہیں کیا اس نے گجرات میں۔ پھر اس کی انتکابی مہم کے دوران کی تقریریں اٹھا کے سن لیں اس کا لب ولہجہ بھی وہی تھا جو ٹرمپ کا تھامسلمانوں کے خلاف۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی ابھی نائن الیون بھولے نہیں ہیں ۔ مسلمانوں سے نفرت اور ان کے خلاف سخت بیانات ہی ٹرمپ کی کامیابی کا سبب بنے ہیں ۔
میڈیاوالوں کیلئے ایک دوست نے کیا خوب کہا
میڈیا والو
ہلیری تو نہیں آئی۔۔ چیک کرو سیلری آئی کہ نہیں