درختوں کے جھنڈ اور کوئل کی کُو کُو……!

درختوں کے جھنڈ اور کوئل کی کُو کُو……!

سطح مرتفع پوٹھوہار کے بارانی علاقے کے ٹبوں ٹیلوں اور کسیوں کی ڈھلانوں، بارشی پانی کی قدرتی گزرگاہوں کے کناروں اور کھیتوں کی منڈیروں پر پھلاہی کیکر اور جنڈ کے کانٹے دار درخت بکثرت پائے جاتے ہیں تو شیشم کے درخت بھی کھیتوں کی منڈیروں، بیلوں اور سڑکوں کے کناروں پر استادہ نظر آتے ہیں۔ کنوؤں کے احاطوں اور پانی والی ٹھنڈی جگہوں پر دیسی توت، جنگلی توت اور دہریک (بکائیں) کے سایہ دار درخت بھی جا بجا نظر آتے ہیں۔ پھلاہی اور کیکر کے درختوں پر کھانے والا کوئی پھل نہیں لگتا لیکن تیز و نوکدار کانٹے ضرور ہوتے ہیں۔ جنڈ (بیری) کے درختوں پر کانٹے ہوتے ہیں لیکن ان پر کھانے والے بیر بھی لگتے ہیں جو عام طور پر مارچ، اپریل کے مہینوں میں پکتے ہیں اور تیز ہوائیں چلتی ہیں تو جنڈ یا بیری کے درختوں کے نیچے بیروں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ پھلاہی، کیکر اور جنڈ کے درخت ہوں یا شیشم کے پیڑ ان کی لکڑی بہت سخت ہوتی ہے اور اس کو دیمک، گھن یا اور کوئی کیڑا نہیں لگتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان درختوں کی لکڑی جلانے کے ساتھ مکانوں اور پساروں (کھلے برآمدوں) کی چھتوں پر بالوں اور کڑیوں کی صورت میں استعمال ہوتی ہے تو فرنیچر بنانے کے لیے بھی ان درختوں کی لکڑی کا استعمال عام ہے۔ پھلاہی کی لکڑی کچھ زیادہ ہی سخت اور اس کے کانٹے کچھ زیادہ ہی نوکیلے ہوتے ہیں۔ اس کے درخت شیشم یا دیسی کیکر کے درختوں کی طرح زیادہ اُونچے نہیں بلکہ کم اُونچے اور جھاڑیوں کی طرح پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کی جھاڑی نما ٹہنیوں کے دو شاخوں یا سہ شاخوں میں فاختائیں یا اسی طرح کے دوسرے پرندے اپنے گھونسلے بنانا پسند کرتے ہیں۔پھلاہی کے درختوں کی لکڑی کا کمال یہ بھی ہے کہ یہ تازہ کٹی ہوئی اور خشک نہ ہو تب بھی کچھ دیر سلگنے کے بعد آگ پکڑ لیتی ہے۔ اس لیے دیہات میں چولہوں میں جلانے کے لیے اس کو ترجیح دی جاتی ہے۔پھلاہی کے پودوں پر عموماً اپریل مئی میں ذرا زردی مائل پھول جسے بُور کہتے ہیں لگتا ہے اس بُور یا پھولوں کی خوشبو اتنی بھینی بھینی اور جانفزا ہوتی ہے کہ جس جگہ پر پھلاہی کے درخت ہوں وہ اور آس پاس کی جگہیں اس بھینی بھینی اور میٹھی خوشبو سے مہک اُٹھتی ہیں۔ پھلاہی کے درختوں کو اللہ کریم نے ایک اور یہ کمال بھی بخشا ہے کہ ان کا سایہ بہت ٹھنڈا اور فرحت بخش ہوتا ہے۔ مئی، جون کی تپتی دوپہروں میں اپنے کھیتوں کھلیانوں میں پرمشقت کام کرنے کے بعد پسینے سے شرا بور جسم کو پھلاہی کے درخت یا درختوں کے ٹھنڈے سائے میں بیٹھنا نصیب ہو جائے اور اس کے ساتھ پھلاہی کے بُور (پھولوں) کی بھینی بھینی خوشبو بھی فضا میں بکھری ہو تو ایسا لطف اور آرام نصیب ہوتا ہے کہ ساری تکلیف اور کلفت دور ہو جاتی ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ میں پھلاہی اور دوسرے درختوں کا ذکر کیسے لے بیٹھا۔ سچی بات ہے میرے لیے اپنے علاقے بالخصوص اپنے گاؤں کے آس پاس کے ٹیلے، ٹیبے، کسیاں، کنوئیں، راہٹ، درختوں کے جھنڈ اور ان کی گھنی شاخوں میں بسیرا کرنے والے پرندے، کھیتوں کھلیانوں میں کام کرنے والے کسان اور بیلوں اور جنگلوں وغیرہ میں اپنے مال مویشی اور ڈھول ڈنگر چرانے والے چرواہے ہمیشہ سے ایک رومانس کا درجہ یا انسپائریشن کا ذریعہ رہے ہیں۔ کسان گھرانے سے تعلق، تھوڑی سی قابل کاشت اور زیادہ بنجر پڑی زمین کی ملکیت، گندم، مکئی اور جوار باجرے کی فصلیں، کنوئیں کی چاہی زمین جس میں اب چھوٹا سا ٹیوب ویل لگا ہوا ہے کے کچھ حصے میں بچپن کے زمانے میں گرمیوں کے موسم میں خربوزوں کے ساتھ پیاز اور کچھ دوسری سبزیوں کی کاشت اور کھیتوں کی منڈیر پر لگے آڑو کے پھلدار پودے اور گاؤں سے ایک ڈیڑھ کلومیٹر دور اس کھلی فضا میں رات کو سونا اور سونے سے قبل آسمان پر ستاروں کو دیکھنا اور صبح اُٹھ کر راہٹ کے ٹھنڈے پانی میں ہاتھ منہ دھونا یا نہانا اور خربوزوں کے کھیت میں سے پکے ہوئے خربوزوں کو چننا اور اپنی پسند کے میٹھے خربوزوں کو کھاناوغیرہ میرے بچپن یا سکول کے زمانے کے ایسے مناظر یا ایسی یادیں ہیں جو زندگی کی آخری سانسوں تک میرے ساتھ جڑی رہیں گی۔
بچپن کے دور کا ایک اور نقش جو میرے ذہن میں ثبت ہے وہ اپریل مئی میں گرمیوں کے آغاز پر درختوں کے جھنڈ میں گھنی شاخوں پر سیکڑوں کی تعداد میں طوطوں، کوؤں اور میناؤں جیسے پرندوں کے چہچہانے، ٹیں ٹیں اور کائیں کائیں کرنے کی آوازوں کے ساتھ کوئل کی کُو کُو اور پپیہوں کے پی پی کی آوازوں کا سنائی دینا بھی تھا۔ عام طور پر کوئل اور پپیہا جیسے پرندوں کا باغوں میں آموں اور جامن جیسے گھنے پیڑوں کی شاخوں پر بیٹھ کر کُو کُو اور پی پی کی سُریلی اور جانفزا آوازیں نکالنے سے جوڑا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں آم اور جامن کے پیڑ شاز و نادر ہی ہیں لیکن توت، بیر، شیشم، کیکر، جنڈ اورپھلاہی وغیرہ درختوں کے جھنڈ جیسے اوپر ذکر ہوا ہے بکثرت پائے جاتے ہیں۔ طوطوں، کوؤں، میناؤں اور فاختاؤں کے ساتھ کوئل اور پپیہا جیسے پرندے انہی درختوں پر بسیرا کرتے ہیں تو ساتھ ہی اپنی سُریلی آوازیں بھی نکالتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں محدود سی گندم کی فصل کی کٹائی اور اس کے گاہنے کا مسئلہ درپیش تھا تو لگاتار گاؤں جانے کا سلسلہ رہا۔ کوشش تھی کہ روزانہ برسنے والی بارش میں کچھ گنجائش نکلے تو یہ کام ہو جائے۔ اسطرح کھیتوں کے چکر لگانے ضروری تھے۔ کنوئیں کے قریب درختوں کے ایک گھنے جھنڈ جس میں شیشم، بکائین، پھلاہی اور کیکر وغیرہ کے ملے جلے درخت ہیں کے پاس سے جب بھی گزر ہوا تو پرندوں کے ادھر اُدھر اُڑنے اور درختوں کی شاخوں پر بیٹھنے اور اپنی اپنی آوازیں نکالنے کے ساتھ کوئل کی کُو کُو اور پپیہے کی پی پی جیسی آوازیں بھی سننے کو ملتی رہیں۔ سچی بات ہے کہ ان آوازوں کو سن کر جہاں دل خوش ہوتا رہا وہاں مجھے اپنے لڑکپن کے وہ مناظر بھی یاد آتے رہے کہ جب ہمارے گاؤں کے مشرق اور مغرب میں دریائے سواں کے کنارے پر سرکنڈوں کے بیلوں میں شیشم کے درختوں کے جھنڈ(سرکاری جنگل) ہوا کرتے تھے اور صبح سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی سیکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں پرندے جن میں زیادہ تر طوطے، کوے، مینائیں اور فاختائیں ہوا کرتی تھیں اور اکا دوکا کوئل اور پپیہا بھی ہوا کرتے تھے وہ گاؤں کے مشرق والے بیلے اور جنگل سے اُڑ کر مغرب والے بیلے کے شیشم کے درختوں کے جھنڈ اور ملحقہ کھیتوں میں آجایا کرتے تھے۔ دن بھر اُن کا بسیرا اُدھر ہوا کرتا تھا اور اِدھر ہی وہ دانہ دُنکا اور خوراک وغیرہ چنتے رہتے تھے اور شام پڑتے ہی بڑے اُڈاروں کی صورت میں اُڑ کر مشرقی بیلے کی طرف اُڑجایا کرتے تھے اور رات بھر اُدھر ہی درختوں کی شاخوں میں بسیرا کرتے تھے۔ پچھلے دنوں کوئل اور پپیہے کی آوازیں میں نے سنیں تو بچپن اور لڑکپن کے یہ مناظر جہاں میرے ذہن میں تازہ ہوئے تو وہاں ایک اور پرندے کی یاد بھی میرے ذہن میں آگئی تو میں نے سوچا کہ لمبی دُم اور سیاہ چمکتے پروں اور جسم کا مالک یہ پرندہ جسے ہم "کالی کات" کہتے ہیں کہیں نظر نہیں آیا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ اس پرندے کے ادھر آنے کے شائد ابھی کچھ دن باقی ہیں کہ یہ پرندہ سخت گرمی کے دنوں مئی جون میں ادھر آتا ہے اور آخر ستمبر تک ادھر ہی بسیرا کرتا ہے۔ لمبی دُم، کبوتر سے ذرا چھوٹے اور عام مینا سے ذرا بڑے اس سیاہ چمکتے رنگ والے پرندے کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ نصف کرہ جنوبی (دنیا کے جنوبی حصے)میں واقع آسٹریلیا جیسے ممالک کا پرندہ ہے۔ وہاں جب وسط اپریل یا مئی کے آغاز میں سردیوں کا موسم شروع ہوتا ہے تو یہ پرندہ وہاں سے نقل مکانی کر لیتا ہے اور ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد گرمیوں کا موسم گزارنے کے لیے ہمارے ہاں آجاتا ہے اور پھر ستمبر کے آخر میں جب ادھر فضا میں خنکی بڑھ جاتی ہے تو واپس اپنے آبائی علاقوں میں چلا جاتا ہے۔ اس پرندے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ سحری کے وقت اپنی خوبصورت آوازیں نکالتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس کی آوازیں سُن کر والد مرحوم جاگ پڑتے تھے اور نماز پڑھنے کے بعد اپنے مویشیوں کی جوڑی جوت کر ہل چلانے کے لیے کھیتوں کی طرف روانہ ہو جایا کرتے تھے۔