شاعر نے کہاتھاکہ’’ وقت طلوع دیکھاوقت غروب دیکھا‘‘…ہم نے میلان میں وقت طلوع تو نہیں البتہ طلوع شدہ دن اور اس کا وقت ِغروب ضروردیکھا۔شہرکو جی بھرکر نہ دیکھ سکے تو میلان ایئرپورٹ کوخوب خوب دیکھا۔جب ہم ایئرپورٹ پر بہت وقت گزارچکے تووقت دیکھا،معلوم ہواکہ اب بھی ہماری فلائٹ میں دوگھنٹے باقی ہیں ۔ شایدبورڈنگ کا آغازہوگیاہو؟لیکن اس سے پہلے پدروپسرنے وضوکرکے ایک بارپھر اکٹھے فریضہ اداکیا اوربورڈنگ کارنرکی جانب چلے …یہاں پہنچ کر معلوم ہواکہ بورڈنگ شروع ہوئے تو دوگھنٹے ہوچکے ہیں۔ ہم وقت کی فراوانی کے باعث اس جانب سے روایتی خرگوش کی طرح بے فکر بیٹھے رہے تھے۔ اب جو اس سمت آئے تو دیکھا کہ یہاں جم غفیراکٹھاہوچکاتھا۔ غنیمت تھی کہ’’کچھوا‘‘ ابھی نکل نہیں گیاتھا۔جب میں اپنی باری پر پیلی پٹی تک پہنچا تو بجائے اس کے کہ میرے سامنے والا کائونٹر کلرک دعوت دیتا، اس کے برابر بیٹھی ڈائن نما بڑھیا نے مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔میں اسے دیکھ کر اردوکے ان سفرنامہ نگاروںکویادکرنے لگا جنھیں ایئرپورٹوں پر صرف پریاں ملتی ہیں جو انھیں اپنے پروں پر اڑاکر لے جانے کی مشتاق ہوتی ہیں اوروہ انھی کی رفاقت میں اپنے اوقات اورسفرنامے کے اوراق سیاہ کرتے چلے جاتے ہیں۔جی چاہاکہ اردوکے سفرنامہ نگاروں کو بلاکر یہ بڑھیا دکھائوں کہ یورپ میں حسن کی دیویاں ہی نہیں ہوتیں، ایک پہلو یہ بھی ہے یوروپ کی تصویرکا… میں کہ ان خیالوں میں تھا،اس وقت حیران رہ گیاجب بلاجواز اسی بڑھیانے مجھے اپنی جانب بلالیا…میراماتھا ٹھنکا کہ اسے میرے خیالات کے سلسلوں کی کیسے خبر ہوگئی …؟ ہم نے دوٹکٹ لیے تھے اور دو ٹکٹوں پر ہم بیس کلو تک کا سامان لے جاسکتے تھے۔ ہم نے ایک ہی بیگ بیلٹ پررکھا۔اس بڑھیانے پہلے تو مجھ سے اس پر لگاہوا پچھلی ایرلائن کا ٹیگ اتروایااور پھربولی آپ کواس کے چارجز اداکرناہوں گے …
یعنی پہلے تو سستی ایئرلائن کی مہنگی ٹکٹ خریدی اور اب مزید جرمانہ یہ کہ سامان کے الگ پیسے بھی دیے جائیں۔ میںنے اسے بتایاکہ ہمیں یہ بتایاگیاتھاکہ ایک ٹکٹ پر آپ دس کلو تک سامان لے جاسکتے ہیں ۔ہمارے پاس دوٹکٹ ہیں اور سامان کا وزن تیرہ کلوہے… لیکن وہ نہ مانی اور اس نے بورڈنگ کارڈ کے بجائے ایک اور کارڈ پر ۱۳کلو لکھااور مجھے دے کر کہا کہ آپ فلاں کائونٹر پر جائیں ۔اس کائونٹرکا پتا کبھی اِس سے پوچھا اور کبھی اُس سے، یوں ڈھونڈ ڈھانڈ کر متعلقہ کائونٹر تک پہنچے۔ وہاں اس سے بھی بڑھ کر خشونت مآب خاتون بیٹھی تھی اس نے فی کلو وزن کا حساب لگایا اور کہا کہ آپ کو فی کلو کے حساب سے تیرہ کلوسامان کے ایک سوچھپن(۱۵۶)یورواداکرناہوںگے۔لیجیے’’اسداورلینے کے دینے پڑے‘‘…نمازیں بخشوانے گئے تھے ،یہاں روزے بھی منتظرپائے گئے ۔میںنے اس سے کہا ہم وہ بیگ ہاتھ میں بھی لے جاسکتے ہیں۔ وہ کہنے لگی آپ نیچے جاکر بات کریں۔ معاملہ پیچیدہ ہوتا جارہاتھا۔تاہم حسب ہدایت نیچے گیا۔ جس کائونٹر پر جانے کوکہاگیاتھا اس پر لگی قطارمیں شامل ہوگیاجب میری باری آنے لگی تو میںنے دیکھا کہ سامنے وہی بڑھیابراجمان ہے جس نے سارا فساد برپاکیا تھا۔
ابھی میری باری نہیں آئی تھی کہ اس کے برابر کے کائونٹر پر بیٹھی ایک دوسری خاتون نے ،جو فارغ بیٹھی تھی، مجھے اپنی جانب بلالیا۔ میںنے اسے اپنا موقف اور روداد سنائی تو اس نے اسی وقت بورڈنگ کارڈ نکال دیاجس کا مطلب تھا کہ ٹکٹ بنانے والوں نے سامان کی نسبت جو کہاوہ درست تھااوراس کی رفیق خاتون کا مطالبہ غلط،ہمیں کوئی اضافی رقم اداکرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن برابرکے کائونٹروالی خاتون ابھی بورڈنگ کارڈ میری جانب بڑھاہی رہی تھی کہ وہ پہلے والی ڈائن نما بڑھیا اپنی سیٹ سے اٹھی اور لپک کر اس نے یہ بورڈنگ کارڈ اپنے قبضے میں لے لیا اورکسی ہیڈ مسٹریس کی طرح مجھے کہنے لگی کہ’’ آپ اس کے پاس کیوں گئے…؟‘‘ مجھے کیا معلوم تھاکہ ان دونوکے درمیان پیشہ ورانہ رقابت قسم کا کوئی تعلق ہے، عرض کیا میں تو نہیں گیا اس نے مجھے اپنی جانب آنے کے لیے کہا تو میں اس طرف آیا۔ آپ بتائیں اب آپ کیا چاہتی ہیں؟ اس نے کہا آپ کو رقم اداکرنا ہوگی۔ میں نے کہا لیکن کتنی رقم؟ آپ نے پچاس یورو کہے تھے لیکن جہاں آپ نے مجھے بھیجا وہ خاتون مجھ سے ایک سو چھپن یورو مانگ رہی ہے ۔یہ سن کر اس نے مجھے دیاہوا پہلا کاغذ مجھ سے واپس لے لیا اور اس پر اپنے نامبارک ہاتھ سے لکھاہواتیرہ(۱۳) کا ہندسہ انگریزی کے ون(ایک) سے بدل دیا اور کہنے لگی اب آپ جائیں… وہ آپ سے پچاس یورولے گی …میںنے کہا میرے سابقہ تجربے کی روشنی میںیہ کافی نہیںہے ،آپ اسے فون بھی کریں۔ چنانچہ ایک بلانے دوسری خوف ناک تربلا کو فون کیا۔ میں ایک بار پھر اوپرکی منزل پر واقع دوسری خشونت مآب بڑھیاکے کائونٹرپر گیا۔ اب اس کا رویہ کسی قدر انسانی تھا۔اس نے کہا کہ اصل میں اس خاتون نے’’ ۱۳کلو ‘‘لکھ دیاتھا جس کا مطلب تھاکہ آپ سے فی کلو کے حساب سے پیسے لیے جائیں، اب انھوںنے لکھاہے کہ’’سنگل پیس‘‘ ہے اس کے پچاس یورو ہیں۔اگرچہ یہ مسئلہ ء فیثاغورث مجھے سمجھ نہیں آیاکہ ٹریول ایجنٹ نے ایک ٹکٹ پر دس کلوکاایک پیس لے جانے کی نویدسنائی تھی جس کا مطلب تھاکہ ہم دوٹکٹوں پر بیس کلو تک کاسامان لے جاسکتے ہیں۔ہم دومسافروں کے پاس سامان کا ایک ہی پیس تھا جس کاوزن کل تیرہ کلوتھا۔پہلی بڑھیانے اس بیگ کا وزن کرکے ہمیں تیرہ کلووزن کے چارجز اداکرنے کا حکم سنایاجبکہ اس دوسری خاتون نے فی کلوکے حساب سے ۱۵۶ یورو طلب کیے۔ اب پہلی خاتون نے تیرہ کلوکوایک پیس سے بدل دیاتو کرایہ پچاس یورو ہوگیا…یاللعجب… میرصاحب یادآئے ……
جن بلائوں کو میرسنتے تھے
ان کو اس روزگارمیں دیکھا
اس جبرسے بھی خاموشی کے ساتھ گزرتے ہوئے پچاس یورو، اس کے بلیدان میں ڈالے اور واپس آکر اسی پہلی خوفناک بڑھیاکوپچاس یورو کی رسید دکھائی تواس کی تسکین کاسامان ہوااور ہمیں بورڈنگ کارڈ ملا ۔وہی بورڈنگ کارڈ جو اس کے برابر میں بیٹھی ہوئی خوش خلق خاتون نے بلاحیل و حجت بنادیاتھااورجسے اس بڑھیانے نامعلوم وجوہ کی بناپراس خاتون کے ہاتھ سے چھین لیاتھا…
بورڈنگ کارڈ کے لیے جو غیرضروری بلکہ اجباری بھاگ دوڑ ہمیں کرنا پڑی اس میں تشویش کا یہ پہلو بھی تھاکہ فلائٹ کا وقت آٹھ بجے تھا۔ ہم اگرچہ پچھلے پانچ گھنٹے سے ایئرپورٹ پر بیٹھے تھے لیکن اس غیرضروری بھاگ دوڑکے باعث اب بہت دیر ہوچکی تھی اورجہازپر سوارہونے والوں میں بھگدڑ کا سلسلہ شروع ہوچکاتھا۔ بورڈنگ کارڈ دینے والی بڑھیانے کہا آپ کے پاس صرف چھ منٹ ہیں ،جلدی کریں ……کیاجلدی کریں کہاں جائیں؟ یہ بتانے والاکوئی نہ تھا۔ لائونج میںصرف یہ لکھاتھا کہ آپ راستہ’’ اے‘‘ سے
جائیں گے لیکن راستہ’’ اے‘‘ تک پہنچنے میں ابھی کئی مرحلے باقی تھے ۔بھاگم بھاگ ’ راستہ ’اے‘‘ کی تلاش میں نکلے۔ یہاں بھی ایئرلائن کی گدھا گھوڑ ایک پالیسی کے تحت تمام فلائٹوں کے مسافر ایک ہی سمت ہانکے جارہے تھے۔ ناچارہم بھی اس ہجوم میں داخل ہوگئے، ایک تو گھبراہٹ، جلدی اور پریشانی دوسرے وہی توہین آمیز سلوک کہ کوٹ اتاریں، بیلٹ اتاریں اور بعض صورتوں میں جوتے بھی اتاریں… خواتین سے بھی ان بے چاریوں کے لباسوں کے اختصار کے باوصف ان کے لبادے اتروائے جارہے تھے ،پھر ہار بھی اتروائے جارہے تھے، پھر جوتے بھی۔ ان بے چاریوں کے جسموں پر باقی جو کچھ بچتاتھا وہ محض نادیدنی رہ جاتاتھا ۔قیامت خیز جلدی کے ساتھ یہ سب کچھ کیاجارہاتھا کہ اچانک ہمارے دستی سامان پر گھنٹیاں بج اٹھیں اوراسے روک لیا گیا…این گل ِ دیگر شگفت…یااللہ خیر یہ کیا ہوا؟ سامان کھولا گیا، یہاں کے عملے کے رویے میں بھی اس خاتون جیسی خشونت دکھائی دینے لگی۔ پتہ چلاکہ حذیفہ صاحب نے اپنا ’باڈی لوشن‘ اور ایک پانی کی بوتل اپنے دستی سامان میں رکھ چھوڑی تھی۔ مجھے سخت پیاس لگی تھی، میںنے پانی کی بوتل برآمدہونے کوغنیمت سمجھتے ہوئے اس میں موجود چند گھونٹ پانی پی کر اس کا قصہ تمام کرناچاہالیکن یہاں ڈیوٹی پر موجودخاتون نے مجھے ایساکرنے سے منع کردیا اور کہاکہ اگر آپ یہ پانی پیناچاہتے ہیں تو باہر جاکر پی کرآئیں اور دوبارہ چیک ان ہوں…میرصاحب جن بلائوں کو صرف سنتے تھے ہم ان میں سے ایک بلاسے نپٹ لیے تو ’’اک اورآفت کاسامناتھامنیر مجھ کو‘‘یااللہ یورپ کا ’حسن‘ اتنا سنگ دل ہے؟ اس کے سینے میں توشایدکوئی دروازہ نہیں… ’’باہرجاکر اس بوتل کاپانی پی کر دوبارہ اندرآئیں‘‘ اس ایمرجنسی کی کیفیت میں بلاکایہ مشورہ دینے کے لیے جس سنگ دلی کی ضرورت تھی وہ اس ’’بلا‘‘میں وافرمقدارمیں دکھائی دے رہی تھی۔اس مشورے پر عمل کرنے کا مطلب تھاکہ باہرجانے اور دوبارہ چیک ان ہونے میں اتنی دیرہوجائے گی کہ آپ بہ آسانی فلائٹ سے ہاتھ دھوسکیں گے ۔ظاہر ہے مجھے یہ منظورنہیں تھا۔چنانچہ اس مطالبے کو راستے کی گردسمجھتے ہوئے باڈی لوشن کے ساتھ خوردنی پانی کی بوتل بھی بلائوں کے سپردکی اورظفرعلی خان کاشعریادکرتے ہوئے اپنی اگلی منزل ایمسٹرڈم کی جانب بڑھ گئے۔
حسینان ِفرنگ اچھے ہیں لیکن آفت ِجاں ہیں
نہ رکھناان سے بیراچھانہ کرناان سے پیاراچھا