ابراہم لنکن اور جان ایف کینیڈی امریکہ کے صدر تھے۔ دونوں کے درمیان ایک صدی کا فاصلہ تھا۔ دونوں اپنی جادوئی شخصیت کے باعث امریکی سوسائٹی میں ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔ دونوں ہی عہدۂ صدارت کے دوران قتل ہوئے اور محققین حیران کن حد تک دونوں کے قتل کی بنیادی وجہ بھی ایک ہی بتاتے ہیں۔ ابراہم لنکن نے امریکہ میں سول وار کا قرضہ ادا کر نے کے لیے بلاسود سرکاری خزانہ بنانے کا ارادہ کیا۔ اس منصوبے کو گرین بیک ڈالر کا نام دیا گیا۔ منصوبے کا اعلان ہوتے ہی انٹرنیشنل بینکاروں کے وفد نے جیمز گیلیٹن کی سربراہی میں اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقات کی اور انھیں تنبیہ کی کہ ابراہم لنکن بینک اصلاحات سے باز رہیں اور حکومت پہلے کی طرح اپنا گولڈ پرائیویٹ بینکوں میں جمع کرائے۔ یہ گولڈ پرائیویٹ بینکوں کے زیراستعمال رہے گا اور کھاتہ داروں کو محض چیک کے ذریعے ادائیگی کی جائے گی مگر بینکاروں کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لایا گیا اور انہیں باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ انٹرنیشنل بینکاروں نے کانگریس میں اپنے نمائندوں کے ذریعے اس منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کی لیکن ابراہم لنکن کی ذاتی عزت اور اثرورسوخ کی بنا پر کامیاب نہ ہوسکے۔ ابراہم لنکن نے 3سال کے مختصر عرصے میں گرین کارڈ کرنسی کے ذریعے 1.3 بلین ڈالر کی رقم اکٹھی کرلی۔ یہ سب کچھ سودخور انٹرنیشنل بینکاروں کے پیٹ پر لات مارنے کے مترادف تھا جس کا اظہار ابراہم لنکن نے اپنے ایک خط میں یوں کیا کہ ’’میں ایک خطرناک طوفان کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور اس راز کو پاجانے کے بعد خوف سے کانپ رہا ہوں کہ سودخور طاقتیں امن کی حالت میں شہریوں کو شکار بناتی ہیں جبکہ بدامنی کی حالت میں انہی کے خلاف سازشیں کرتی ہیں۔ یہ طاقتیں بادشاہ سے زیادہ آمرانہ ہوتی ہیں۔ سرکش، مغرور، ظالم حکمرانوں سے زیادہ سرکش، مغرور، ظالم ہوتی ہیں اور خودغرض بیوروکریسی سے زیادہ خودغرض ہوتی ہیں‘‘۔ انٹرنیشنل سودخور بینکاروں کی مرضی کے
خلاف ابراہم لنکن نے 25 فروری 1863ء کو ’’نیشنل کرنسی ایکٹ‘‘ اور 3جون 1864ء کو ’’نیشنل بینک ایکٹ‘‘ پر دستخط کردئیے۔ اس قانون کی منظور ی کے تقریباً 9ماہ بعد ابراہم لنکن 15اپریل 1865ء کو قتل ہوگئے۔ ان کے مرنے کے بعد بینکوں کی مذکورہ اصلاحات منسوخ کردی گئیں۔ جان ایف کینیڈی 1961ء میں امریکہ کے صدر بنے۔ وہ امریکی معاشرے کے امراء میں سے تھے۔ انٹرنیشنل بینکاروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے امریکی صدر کا کینیڈی ہونا ہی کافی تھا کیونکہ وہ بینکاروں کے مقاصد کو آگے بڑھا سکتے تھے لیکن وقت نے بتایا کہ ایسا سوچنا بینکاروں کی غلطی تھی اور انہوں نے ایک ایسے شخص کو طاقتور بنا دیا تھا جو اپنے ہی نظریات رکھتا تھا اور ان پر عمل درآمد کے لیے بضد تھا۔ کینیڈی نے ابراہم لنکن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تقریباً 98 سال بعد ایک مرتبہ پھر سود سے پاک سرکاری خزانہ بنانے کی کوشش کی۔ پہلے سے موجود روایتی فیڈرل ریزرو مَنی کو کسی قیمتی شے کا تحفظ حاصل نہیں تھا جبکہ کینیڈی کے نئے بینکاری نظام کو چاندی کے ذخائر سے تحفظ دیا گیا تھا۔ بلاشبہ یہ ایک بہت خطرناک مہم تھی۔ کینیڈی یہ راز بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو انٹرنیشنل سودخور بینکار دیوالیہ ہو جائیں گے۔ لہٰذا یہ سی آئی اے کی تشکیل نو سے بھی زیادہ حساس معاملہ تھا مگر انہوں نے ایک ایگزیکٹو آرڈر نمبر 11110 پر دستخط کردئیے جس کے تحت فیڈرل ریزرو بینک آف امریکہ کے بجائے حکومت کو براہِ راست کرنسی جاری کرنے کا اختیار مل گیا۔ اس طرح کینیڈی انٹرنیشنل بینکاروں کو بائی پاس کرکے ما رکیٹ میں 4.3 بلین ڈالر کی رقم لے آئے۔ اس ایگزیکٹو آرڈر سے فیڈرل ریزرو بینک آف امریکہ اور انٹرنیشنل بینکاروں کا کاروبار ٹھپ ہونے لگا کیونکہ اب فیڈرل ریزور بینک کے نوٹوں کی اہمیت نہیں رہی تھی۔ مزید یہ کہ کینیڈی 1965ء تک ویتنام کی جنگ ختم کرنا چاہتے تھے۔ اس جنگ سے انٹرنیشنل بینکوں کو بے حساب فائدہ ہورہا تھا اور جنگ کے خاتمے سے ان کا یہ منافع بند ہوجانا تھا۔ کینیڈی ایک ذہین لیڈر تھے لیکن شاید امراء کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے منصوبوں کو ہی ذہانت کہا جاتا ہے، اس کی ہی اجازت ہوتی ہے اور یہی قابل قبول ہوتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ جان ایف کینیڈی نے ایگزیکٹو آرڈر نمبر 11110 پر دستخط کرکے دراصل اپنی ہی موت کے پروانے پر دستخط کیے تھے کیونکہ 4ماہ بعد ہی انہیں قتل کردیا گیا اور ان کی مذکورہ بینک اصلاحات بھی منسوخ کردی گئیں۔ بینکوں کی پرانی تاریخ پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ 1812ء کی جنگ کے بعد امریکہ میں دوبارہ سینٹرل بینک بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس بینک کو بنانے کی کوششوں کے پیچھے یورپ کے راتھس چائلڈ خاندان کا ہاتھ تھا۔ انسائیکلوپیڈیا جیوڈیکا کے مطابق راتھس چائلڈ ایک اہم ترین یہودی خاندان ہے جسے ویٹی کن سٹی کی دولت کے رکھوالے کا لقب بھی حاصل ہے۔ عمومی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ فیڈرل ریزرو بینک امریکی ڈالر بنارہا ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے کیونکہ فیڈرل ریزروبینک فیڈرل نہیں ہے بلکہ انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق یہ بینک راتھس چائلڈ اور راک فیلر جیسے دنیا کے امیرترین 12بینکار خاندانوں کی ذاتی ملکیت ہے۔ پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے 20سال بعد سودی نظام معیشت کے خلاف دائر مقدمات کا فیصلہ گزشتہ دنوں سنایا جس کے مطابق سود کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیرشرعی قرار دے دیا اور حکومت کو سودی نظام کے مکمل خاتمے کے لیے 5سال کی مہلت دے دی۔ عدالت نے بینکوں کی جانب سے اصل رقم سے زائد رقم وصول کرنا ربا اور آئین و اسلام کے خلاف قرار دیتے ہوئے 31دسمبر 2022ء تک تمام قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کی ہدایت کردی جبکہ سود سے پاک بینکاری نظام لانے سے معیشت پر منفی اثرات کا حکومتی موقف مسترد کردیا اور حکم دیا کہ حکومت اندرون و بیرون ملک تمام قرضوں کو سود سے پاک نظام کے تحت لائے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ڈونر ایجنسیوں کے ہوتے ہوئے پاکستان میں بلاسود بینکاری نظام کیسے قائم ہوسکتا ہے؟ کیونکہ سود کے حصول کے لیے ہی تو انٹرنیشنل سودخور مبینہ طور پر دوامریکی صدر کھا چکے ہیں۔
شرعی عدالت کا سود کے خاتمے کا حکم اور امریکی صدور
08:57 AM, 11 May, 2022