لاہور : عین ممکن ہے کہ سعادت حسن مر جائے لیکن منٹو زندہ رہے گا ،بےمثل وبے نظیرافسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی آج 109ویں سالگرہ ،منٹو کا بیباک اندازِتحریراور معاشرے کی منافقانہ روش سے بغاوت ان کی وجہ شہرت بنا۔
منٹو 11 مئی 1912 میں سمرالہ انڈیا میں پیدا ہوئے تھے ، پورا نام سعادت حسن منٹو جبکہ ان کے چاہنے والے انہیں منٹو کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم امرتسر میں حاصل کی پھر کچھ عرصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزارا مگر تعلیم مکمل نہ کرسکے اور واپس امرتسر آگئے۔
ابتداءمیں انہوں نے لاہور کے رسالوں میں کام کیا پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں انہوں نے بعض نہایت کامیاب ڈرامے اور فیچر لکھے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہوگئے جہاں متعدد فلمی رسالوں کی ادارت کی اس دوران متعدد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کئے۔قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے اور اپنی عمر کا آخری حصہ اسی شہر میں بسر کیا۔
ایک طرف تو انہوں نے جنس کو موضوع بنایا۔ دوسری طرف ہندوستان کی جنگ آزادی سیاست، انگریزوں کے ظلم وستم اور فسادات کو افسانوں کے قالب میں ڈھال دیا۔ ان کی حقیقت پسندی، صداقت پروری، جرات و بے باکی اردو ادب میں ضرب المثل بن چکی ہیں۔
وہ 18 جنوری 1955 کو لاہور کے ہال روڈ پر انتقال کرگئے ، آخری ایام میں جگر کی بیماری میں مبتلا تھے ۔ انہیں میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا ۔
سعادت حسن منٹو نے اپنی زندگی میں ہے اپنا کتبہ تیار کرلیا تھا ، جو ان کے مرنے کے بعد ان کی قبر پر لگایا گیا ۔