اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سپر ٹیکس ایک خاص مقصد کے لیے عائد کیا گیا تھا، اور ایک مرتبہ نافذ کرنے کے بعد کیا یہ ہمیشہ کے لیے جاری رہ سکتا ہے؟
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں آئینی بنچ نے سپر ٹیکس کیس کی سماعت کی۔ اس دوران کمپنیوں کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے 2015 میں سپر ٹیکس عائد کیا تھا، جس کا مقصد آپریشن ضرب عضب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹیکس ایک مرتبہ کے لیے لگایا گیا تھا، جو 2015 سے 2022 تک نافذ رہا۔
مخدوم علی خان نے مزید کہا کہ ابتدائی طور پر حکومت نے 80 ارب روپے اکٹھا کرنے کا تخمینہ لگایا تھا، تاہم یہ واضح نہیں کہ حکومت نے سپر ٹیکس کے ذریعے کتنی رقم جمع کی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ حکومت نے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے کیا منصوبہ بنایا تھا؟ کیا ان علاقوں کی بحالی کا کوئی تخمینہ لگایا گیا تھا؟ اور کیا منی بل کے ذریعے سروسز پر ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے؟
مخدوم علی خان نے کہا کہ حکومت پہلے ہی انکم ٹیکس وصول کر چکی تھی اور سپر ٹیکس کو ڈبل ٹیکسیشن سے بچنے کے لیے عائد کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق، سوشل ویلفیئر اب صوبوں کے حوالے کر دی گئی ہے اور سپر ٹیکس صرف ایک سال کے لیے تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپر ٹیکس ایک خاص مقصد کے لیے تھا اور ایک مرتبہ لگانے کے بعد کیا یہ ہمیشہ کے لیے جاری رہ سکتا ہے؟
مخدوم علی خان نے کہا کہ آپریشن سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کا معاملہ صوبوں کا تھا اور اس پر صوبوں کی رضامندی ضروری تھی۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ اعتراض یہ ہے کہ قومی فنڈز سے رقم صوبوں کی اجازت کے بغیر کیسے خرچ کی جا سکتی ہے؟ وکیل ایف بی آر، رضا ربانی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک مسلسل عمل ہے اور اس کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کو مدد فراہم کرنا ضروری تھا۔
مخدوم علی خان نے سوال کیا کہ کیا دہشت گردی 2020 میں ختم ہو گئی تھی؟ کیا حکومت نے 2020 میں سپر ٹیکس وصولی بند کر دی تھی؟
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔