اسلام آباد: سینئر صحافی سلیم صافی نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ڈی ایم نامی اتحاد بھی عملاً ختم ہوچکا ہے اور دوبارہ اس کا بننا مشکل نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران اس کا سربراہی اجلاس تک منعقد نہیں ہوسکا بلکہ کئی جماعتوں کے سربراہوں کی مولانا سے بات چیت بھی بند ہے۔
سلیم صافی نے اپنے کالم میں لکھا کہ موجودہ حکومت کومیڈیا میں جب پی ڈی ایم حکومت کا نام دیا جاتا ہے تو مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ہم میڈیا والے اتنے بے خبر اور نااہل کیوں ہو گئے کیونکہ یہ پی ڈی ایم کی نہیں بلکہ اتحادی یا اتفاقی حکومت ہے۔ پیپلز پارٹی جو پی ڈی ایم کی داعی اور بانی جماعت تھی، پی ڈی ایم سے نکل چکی ہے اور دوبارہ کبھی شامل نہیں ہوئی۔اے این پی بھی اس کا ساتھ چھوڑ چکی ہے۔
اسی طرح ایم کیو ایم اور باپ پارٹی بھی اس حکومت کا حصہ ہیں اور وہ دونوں کبھی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں رہیں۔ دوسری طرف پی ڈی ایم نامی اتحاد بھی عملاً ختم ہوچکا ہے اور دوبارہ اس کا بننا مشکل نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران اس کا سربراہی اجلاس تک منعقد نہیں ہوسکا بلکہ کئی جماعتوں کے سربراہوں کی مولانا سے بات چیت بھی بند ہے۔ پی ڈی ایم کے سینئر نائب صدر آفتاب احمد خان شیرپائو تھے۔
ان کے مطابق جب شہباز شریف، مولانا اور زرداری کو بتایا گیا کہ عمران خان کی ناقابل برداشت حرکتوں کی وجہ سے ان کی سرپرستی کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے اور اقتدار کا دروازہ ان کے لئے کھل گیا ہے تو ایک دوسرے پر شدید برہم مولانا اور زرداری تو اچانک اور پراسرار طور پر بغل گیر ہوگئے لیکن مولانا نے حکومت سازی کے لئے پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بلانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔
ایک تو انہیں خوف تھا کہ کہیں قوم پرست جماعتیں حکومت سازی کی مخالفت نہ کردیں اور دوسرا انہیں خدشہ تھا کہ پھر انہیں بھی اقتدار کی تھالی میں سے حصہ دینا ہوگا۔ چنانچہ اقتدار کے لئے وزارتوں، اہم مناصب اور حتیٰ کہ اہم بیوروکریٹک عہدوں کی تقسیم پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر نہیں بلکہ چار لیڈروں (چوہدری شجاعت، شہباز شریف، زرداری اور مولانا) کے درمیان ہوئی لیکن آفتاب شیر پاؤ، محمود خان اچکزئی اور اختر جان مینگل سے پوچھا بھی نہیں گیا۔
آصف زرداری نے یہی کام اے این پی کے ساتھ کیا جس کی قیادت کو وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں بھی نہیں بلایا گیا۔ اسی طرح مولانا نے اپنے سینئر نائب صدر آفتاب شیرپائو یا محمود خان اچکزئی کو وفاقی حکومت میں کوئی حصہ نہیں دلوایا ۔ادھر آصف زرداری صاحب ایک ایک وزارت پر مسلم لیگ (ن) سے لڑے اور خارجہ، بی آئی ایس پی اور اسی طرح کی کئی وزارتیں ہتھیا لیں۔
دوسری طرف مولانا فضل الرحمان نے پی ڈی ایم کی سربراہی کا کارڈ استعمال کرکے اپنے لئے استحقاق سے زیادہ حصہ لیا۔ ابتدا میں انہیں مذہبی امور، سیفران اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے عہدے دئیے گئے لیکن وہ بہ ہر صورت امیر محکموں یعنی ہائوسنگ اور مواصلات لینا چاہتے تھے ۔چنانچہ انہوں نے احتجاج کیا جب کہ زرداری اور شہباز شریف پر دبائو ڈالنے کے لئے فوری نئے انتخابات میں جانے کا مطالبہ بھی کردیا چنانچہ زرداری نے انہیں ہائوسنگ اور شہباز شریف نے مواصلات کی وزارتیں اپنے حصے سے دےکر راضی کر لیا۔
ایم کیو ایم چونکہ عمران خان کے ساتھ اتحاد بالجبر پر مجبور کی گئی تھی اور ادھر بارگیننگ کرکے آرہی تھی اس لئے اس نے بھی اچھی بارگیننگ کرکے اس مرتبہ تگڑی وزارت اور سندھ کی گورنرشپ لے لی۔ باپ پارٹی کو چونکہ اگرچہ اپنے اصل باپ نے چھوڑ دیا تھا لیکن ان کے بغیر حکومت نہیں بن سکتی تھی اس لئے اس کے دونوں دھڑوں نے بھی وزارتیں لینے میں اچھی بارگیننگ کی۔ بی این پی مینگل اب کی بار ایک تو شامل ہوئے بغیر بلوچستان کی حکومت سے مستفید ہورہی ہے اور دوسری طرف مرکز میں بھی حصہ لے لیا لیکن تینوں پٹھان (اسفند یار ولی، محمود خان اور آفتاب شیر پائو) ضد اور یاری دوستی کی وجہ سے حکومت کو سپورٹ توکررہے ہیں لیکن حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔
آفتاب شیرپاؤ کو بعدازاں شہباز شریف نے بلا کر وزارت کی پیشکش کی لیکن انہوں نے لینے سے معذرت کی جب کہ تب سے اب تک وہ مولانا سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے.
سینئر صحافی کے مطابق شہباز شریف ان سب کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں۔ ان کے وزرا ان کی بات سننے کی بجائے اپنے اپنے پارٹی لیڈروں کی بات سنتے ہیں اور وہ اپنی کابینہ کے ارکان سے بھی اسی طرح بات کرتے ہیں جس طرح پارٹی لیڈر سے کی جاتی ہے۔ اسی طرح ان سب جماعتوں نے بیوروکریسی کے اہم مناصب میں بھی اپنا حصہ وصول کیا اور وہ بیوروکریٹ وزیراعظم کی بجائے دراصل اتحادی جماعتوں کے لیڈروں کی طرف دیکھتے ہیں ۔
علاوہ ازیں وہ پنجاب کے چہیتوں کے ذریعے وفاقی حکومت کو چلانا چاہتے ہیں حالانکہ دونوں جگہ صورت حال یکسر مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اتفاقی تاریخ کی ناکام ترین حکومت ثابت ہورہی ہے اور جلداز جلد اس کا خاتمہ کر کے انتخابات نہ کروائے گئے تو نہ صرف مسلم لیگ (ن) کو شدید نقصان ہوگا بلکہ جس اتفاقی طریقے سے یہ بنی ہے اسی طرح یہ حکومت کسی اتفاقی حادثے سے بھی دوچار ہو سکتی ہے۔