ماہرتعلیم پروفیسر ڈاکٹر حمید رضا صدیقی ، اپنی کتاب’اقبالؒؒ کی سیاسی بصیرت‘ میں لکھتے ہیں کہ علامہ اقبالؒؒ ایک ایسے نابغہ روزگار انسان تھے جن کی زندگی اور کارناموں پر بہت کچھ لکھا گیا ، لکھا جا رہا ہے اور مدتوں لکھا جاتا رہے گا۔ ان کی کثیر الجہت اور کثیر الصفات شخصیت کے مختلف پہلو ان کے معتقدین کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں۔ ان میں سیاست دوراں سے دلچسپی بلاشبہ اپنی جگہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے اگر چہ یہ پہلو بنیادی طورپر ان کی شخصیت پر حاوی نہیں رہا۔انہوں نے انگریزوں ، ہندوؤں اور دیگر اقوام کی سیاسی چالوں اور تحریکوں کا بغور مطالعہ کیا تھا اور ان کی سیاسی بصیرت کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی کیونکہ انہوںنے بہت پہلے اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ان کی زیر نظر تالیف اقبالؒ کی شخصیت کے سیاسی پہلو پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ مضامین ماضی قریب میں مختلف اوقات میں لکھے گئے اور اخبارات و جرائد کی زینت بھی بنے ہیں۔ ان مضامین میں اقبالؒ بحیثیت سیاستدان، اقبالؒ اور نظام سیاست، اقبالؒ اور پنجاب اسمبلی کا الیکشن، اقبالؒ اور پاکستان کا نظام حکومت ، اقبالؒ کا خطبہ الٰہ آباد ، گول میز کانفرنسیں اور اقبالؒ ، گویا اقبالؒ کی سیاسی زندگی کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے۔
پروفیسر حمید رضا صدیقی کی ایک اور کتاب اقبالؒ اور جدوجہد آزادی ہے جو انہوں نے اجمل صدیقی کے ساتھ مل کر مرتب کی ہے۔ اس کتاب میں بھی اقبالؒ کی سیاسی زندگی اور اسلامی فکر کی تشکیل کے حوالے سے اقبالؒ کے فرمودات پر مبنی مضامین شامل کئے گئے ہیں۔ اس کتاب کے مضامین میں مسلم قومیت کا تشخص ، اقبالؒ اور احیائے اعتماد ، جداگانہ وطن کا تصور، پائد اعظم کا صلاح کار، اقبالؒ اور چودھری رحمت علی جیسے یگانہ مضامین شامل کئے گئے ہیں۔ محترم صدیقی صاحب اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ ہماری قومی زندگی کا المیہ ہے کہ ہم معاملات کو جذباتی سطح پر دیکھتے ہیں اور اپنی اقدار کی ٹھوس بنیادیں تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ اقبالؒ کو مفکر پاکستان کی حیثیت سے ہماری قومی زندگی میں جومقام حاصل ہے اس کی ٹھوس علمی بنیادوں پر وضاحت اور صراحت کی بہت کم ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ اندرا گاندھی کے عہد اقتدار میں ہندوستان میں اقبالؒ صدی تقریبات کا بڑے پیمانے پر انعقاد اسی نوعیت کی کوشش تھی۔ جواہر لعل نہرو نے اپنی مشہور تصنیف’تلاش ہند‘ میں ٹامسن کے حوالے سے اقبالؒ کو تحریک پاکستان سے الگ کرنے کی کوشش کی تھی۔ شیخ عبداللہ، جگن ناتھ آزاد، آنند نرائن ملا اور بہت سے دوسرے ہندوستانی زعما نے غلط تشریحات کے ذریعے ہماری قومی نظریاتی بنیادوں کو کمزور کرنے کی پالیسی اپنائی۔ایسے حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تحریک پاکستان میں اقبالؒ کے کردار کو واضح طور پر بیان کیا جائے۔ سابق ڈائریکٹر کالجز ملتان ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اقبالؒ ایک آفاقی شاعر ہیں اور ان جیسا شاعر صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے جو اپنی شاعری سے قوموں کی تقدیر بدلنے کا خاصہ رکھتے ہوں اقبالؒ صرف ایک شاعر نہیں بلکہ فلسفی، دانشور سیاستدان اور درویش تھے۔ علامہ اقبالؒ اسلامی اصولوں کی روشنی میں عہدِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ مملکت کا قیام چاہتے تھے ۔آج وقت ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم پاکستان کو اقبالؒ کے خواب کی حقیقی تعبیر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔شاعر مشرق کا پیغام ہمارے لے مشعل راہ ہے۔ کشمیر سے محبت علامہ اقبالؒ کے خون میں رچی بسی تھی ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اقبالؒ کی شاعری میں ماضی، حال اور مستقبل سب زمانے یکجا ہیں۔ اقبالؒ ہمہ گیر اور متنوع شاعر ہیں۔ ان کا ترجمہ کرنا آسان کام نہیں لیکن شعراء نے بہت حد تک ترجمے کا حق ادا کیا ہے۔ اقبالؒ کی موضوعاتی نظموں کے تراجم بہت ضرور ی ہیں اس سے پورے ملک میں ملی جذبے اور قومی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔ بچوں کے لیے اقبالؒ کی ڈکشنریاں تیار کرنی چاہیے جس کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل بہتر طریقے سے اقبالؒ کی سوچ اور شاعری سے مستفید ہو سکیں گے۔ علامہ اقبالؒ کی شاعری کے تراجم دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔علاوہ ازیں بعض پاکستانی زبانوں میں بھی ان کے تراجم کے سلسلے میں قابل قدر کام ہوا ہے۔ لیکن بعض ایسی بھی پاکستانی زبانیں ہیں جن میں اقبالؒ کی شاعری کے ابھی تک تراجم نہیں ہوئے۔ پروفیسر ڈاکٹر حمید رضا صدیقی علم دوست شخصیت اور علم و عمل کا بہترین نمونہ ہیں۔ان کی علمی‘ ادبی اور سماجی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اردو ادب میں انکا ایک نمایاں نام ہے ۔ڈاکٹر صاحب نے راقم الحروف کے زیر ادارت روزنامہ جسارت ملتان میں کام کیا ہے۔ ان سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ اپنی علمی قابلیت کی بنا پر وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے سلیکشن بورڈ کے ممبر بھی رہے۔ اقبالیات پر ان کی گہری نظررہی ہے اور علامہ اقبالؒ کی زندگی پر انہوں نے بہت سے کتب بھی تصنیف کی ہیں۔
پروفیسر صاحب نے مذکورہ کتب کے ذریعے یہ حقیقت آشکار کی ہے کہ پاکستان کا قیام کسی اچانک نہیں، بلکہ طویل جدوجہد اور فکری پس منظر میں روبہ عمل آیا۔علامہ اقبالؒ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخابات کے پْرجوش حامی تھے یا علامہ اقبالؒ وطن کی بنیاد پر متحدہ قومیت کے شدید خلاف تھے تو اْس کی وجہ بھی یہی تھی کہ متحدہ ہندوستان کی صورت میں مسلمانوں کو محض عبادات کی حد تک تو شاید آزادی میسر آ سکتی لیکن اسلام کو بطور دستور حیات اور بطور نظام نافذ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اقبالؒ کے نزدیک ملت اسلامیہ کے اجتماعی وجود کی حفاظت اور استحکام کے لئے برصغیر میں ایک آزاد اسلامی ریاست کا قیام انتہائی ضروری تھا۔ اسی لئے مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد وطن نہیں بلکہ علامہ اقبالؒ نے دین اسلام کو قرار دیا اور وطنیت کے عقیدے پر قومیت کے تصور کو مسلمان قوم کیلئے انتہائی خطرناک قرار دیا۔
اقبالؒ پر دو کتب کا جائزہ
08:33 AM, 11 Mar, 2022