اس وقت سیاسی صورت حال نئے دور میں داخل ہورہی ہے، معاملات اعتماد اور عدم اعتماد تک آن پہنچے ہیں،کل کے اہل اقتدار آج کی اپوزیشن کا حصہ ہیں، لانگ مارچ سے تحریک عدم اعتماد تک سفراس عوام کی ہمدردی میں طے ہوا ہے، جو بقول ان کے مہنگائی، بے روزگاری کے ہاتھوں مجبورہے، جس پلیٹ فارم سے مشترکہ کاوش کی جارہی ہے،اس میں شریک جماعتیں ایک دور میں ایک دوسرے کی مخالف بھی رہی ہیں،ایک ایسا وقت بھی آیا جب دونوں بڑی جماعتوں نے اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے’’ میثاق جمہوریت‘‘ بھی کیا مگر اس کے ثمرات بھی عوام تک نہ پہنچے، کوئی وعدہ بھی وفا نہ ہوا،قوم کو ایک بار پھر باوردی سرکار کی چھتری کے نیچے آنا پڑا، ناقدین کا خیال ہے کہ جب جمہوریت ہوتی ہے تو سیاسی جماعتیں اسے غیر متزلزل کرنے میں مصروف ہو جاتی ہیں، جب آمریت کا بول بالا ہوتا ہے تو انھیں جمہوریت کی یاد ستانے لگتی ہے۔
ہر مارشل لاء نے آئینی عہد سے دوگنی مدت تک اقتدار کو بلا شرکت غیرے’’انجوائے‘‘ کیا ہے، مگر جمہوری عہد کے نصیب میں پارلیمانی مدت کی تکمیل خواب ہی رہی،اگر کبھی ہوئی بھی تو مشکلات سے دوچار رہی، فی زمانہ یہی منظر درپیش ہے۔سیاسی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ جہاں جمہوریت، چند خاندانوں، سیاسی شخصیات کے گرد گھومتی ہے، سیاسی جماعتوں میں جمہوری کلچر بھی آباد نہیں ہوتا،وہاںقیادت تک کی بات کو نظر انداز کر دینا غیر معقول سمجھا ہی نہیںجاتا۔کہا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے فوری بعد پہلا سیاسی انتشار پنجاب میںہوا جب وزیر اعلیٰ افتخار حسین ممدوٹ کے مدمقابل ممتاز دولتانہ اور سردار شوکت حیات آن کھڑے ہوئے،انکے مابین تنازع ختم کرانے بانی پاکستان قائد اعظم بنفس نفیس لاہور تشریف لائے، اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود وہ اس لئے ناکام رہے کہ کوئی بھی اپنی پوزیشن سے ہٹنے کو تیار نہ تھا،کچھ ایسا ہی منظر نامہ مشرقی پاکستان میں دکھائی دے رہا تھا، جہاں فضل الحق،محمد علی بوگرہ طلبا کو خواجہ ناظم الدین کے خلاف اکسا رہے تھے،قائد ملت کی شہادت کے بعدسول اور ملٹری بیوروکریسی کے دل میں اقتدار کی ہوس بڑھنے لگی، بقول الطاف حسین قریشی ملک غلام محمد،سکندر مرزا طبعاً شاطر اور اقتدار کے بھوکے تھے، ایوب خان کی شمولیت سے یہ اقتدار کی طاقت ور مثلث کی حیثیت اختیار کر گئے۔
1945-46 میں مسلم لیگ کی انتخابات میں کلیدی کامیابی نے جاگیر دار، سیکولر عناصر، مغربی تہذیب کے دلدادہ، علاقائی قوم پرست طبقہ کو بانی جماعت کی جانب متوجہ کیا اور وہ اس میں جوق در جوق شامل ہونے لگے، بانی پاکستان کی وفات اور قائد ملت کی شہادت کے بعد ابتدائی دس سالہ سیاسی ابتری کے پیچھے اس قماش کے طبقہ کا ہی ہاتھ رہا، بقول الطاف حسن قریشی سید مودودی نے مسلم لیگ کی جن اخلاقی کمزوریوں کی طرف نشاندہی کی تھی وہ قیام پاکستان کے بعد نہ صرف کھل کر سامنے آ گئیں بلکہ نظام حکومت پر اس کے منفی اثرات بھی مرتب ہونے لگے تآنکہ ملک دولخت ہو گیا۔
آج بھی مسند اقدار پر وہی کلاس برا جمان ہے جس نے مسلم لیگ کی سنہری کامیابی کے بعد اپنے مفادات کے لئے اس میں شمولیت کو غنیمت جانا، برسر اقتدار ٹولہ اور اپوزیشن میں ہمیں وہی چہرے نظر آتے ہیں، جو قدیمی سیاسی گھرانوں کے چشم و چراغ ہیں،کسی زمانہ میںاگر دادا عوامی نمائندگی کے منصب پر فائز تھا تو آج اس کا پوتا اس عہدہ پر بیٹھا ہے۔عوام کی سادگی یہ ہے کہ وہ انھیں ہی اس اہل سمجھتے ہیں۔
تاریخ اور سیاست کے مصنف ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں،کہ نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد تیسری دنیا کے ممالک میں جمہوری عمل اس لئے جاری نہ رہ سکا،کہ نو آبادیاتی دور کے دو مضبوط ادارے فوج اور نوکر شاہی نے جاگیر داروں، سرمایہ داروں سے اتحاد کرکے سیاسی طاقت اور مراعات کو اپنے لئے مخصوص کرلیا، ان ممالک میں سیاسی تبدیلی اس طرح آتی ہے، جیسے عہد وسطیٰ کے شاہی خاندانوں میں آتی ہے، جب اقتدار ایک خاندان سے دوسرے خاندان میں منتقل ہو جاتا ہے مگر معاشرہ کا ڈھانچہ اسی طرح برقرار رہتا ہے۔بقول انکے شخصی حکومتیں اقتدار کو اپنی ذات یا خاندان میں سمیٹے رکھتی ہیں، جمہوری روایات کا فقدان ہوتا ہے، اس کے اثرات ملک کی معیشت، معاشرت پر بھی نمایاں ہوتے ہیں، معاشی بحران، افراط زر، بے روزگاری،قیمتوں کی زیادتی، غذا کی کمیابی جیسے مسائل کا سامنا جنتا کو رہتا ہے، بیماری،جہالت، غربت، افلاس، رہائش کی کمی،قحط سالی ،آبادی میں اضافہ عوام کو پسماندہ بنا دیتے ہیں۔
ایسی ریاستوں کی حکومتیں ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے، پبلک کو اخلاقی درس دیتی ہیں، فرائض سے آگاہ کرتی ہیں، ان سے مزید قربانیاں مانگتی ہیں۔ عوام کو دفتروں افسروں، اہلکاروں کی ڈانٹ ڈپٹ، رشوت، بد عنوانی سے روز واسطہ پڑتا ہے،چوری ڈاکے، حادثات انھیں ہمیشہ عدم تحفظ کا احساس دلائے رکھتے ہیں،تیسری دنیا کے بیچارے عوام گندگی، غلاظت کے بدبو دار ماحول میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں،عام آدمی مذکورہ مسائل کے بوجھ تلے دبا رہتا ہے،اس میں تبدیلی کی خواہش تو ہوتی ہے، اس لئے وہ کسی مسیحا کا منتظر رہتی ہے کہ وہ ان برائیوں کا خاتمہ کر دے گا، یہ مسیحا اگر آتا بھی ہے تو لباددہ اوڑھ کر نازل ہو تا ہے،پھر بڑے بڑے اعلانات کرتا ہے،عوام کے احساسات سے کھیلتا ہے،لیکن کوئی بھی وعدہ وفا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔موجودہ دورِسیاست اسکی خوبصورت مثال ہے۔ موصوف کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں پر وڈیرے، سرمایہ دار قابض ہوتے ہیں،اس لئے وہ سیاسی عمل کو عوام تک لے جانے سے بچتے ہیں، سیاسی جلسوں ،جلوسوں او ر اخباری بیانات کے ذریعہ اپنی لیڈر شپ کوزندہ رکھتے ہیں، اس کے برعکس سیاسی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں ’’کو‘‘ لانا اور اسے کامیاب بنانا انتہائی مشکل ہوتا ہے،وہاں اقتدار چند اداروں تک محدود نہیں ہوتا،سیاسی عمل میں سیاسی جماعتیں بڑی فعال ہوتی ہیں جنکے منظم تربیت یافتہ کارکن ،دفاتر اور نشرو اشاعت کے ادارے ہوتے ہیں۔
تیسری دنیا میں عوام کو سیاسی طور پر باشعور بنانا،انکی تربیت کرنا، انکی قوت اور توانائی کو معاشرے کی تبدیلی کے لئے استعمال کرنا خو د جماعتوں کے مفاد میں نہیں ہوتا ہے،اس لئے وہ سیاسی ،معاشی بحرانوں کے ذریعہ اقتدارمیں آنا چاہتے ہیں۔شائد یہی تیسری دنیا کے عوام کا مقدر ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے روح رواں بھی مسند اقتدار پر براجمان شخصیت پر یہی الزام دھرتے ہیں کہ انھوں نے اقتدار کی راہ داریوں تک آنے کے لئے شفاف راستے کا انتخاب نہیں کیا اس لئے وہ ملک میں نیا انتخاب چاہتے ہیں،بد قسمتی سے وہ بھی سیاسی بحران سے وہی راستہ چن رہے ہیں، جس طریقہ کے خلاف وہ صف آرا ہیں۔کپتان سے بہت سی امیدیں عوام نے لگا رکھی تھیںکہ وہ سٹیٹس کو مات دیں گے مگر انھوں نے اس کو زینہ بنا کر اقتدارتک پہنچنا لازم سمجھا، الیکٹیبل کی روایتی سیاست سے انھوں نے تو فائدہ اٹھا ہی لیا ہے، تاہم عوام کے نصیب میں تیسری دنیا کی سیاست ہی رہی جس کی کوکھ میں کبھی حقیقی تبدیلی جنم نہیں لے سکتی۔
سیاسی نظام سے بیزار عوام کو اب کسی نئے مسیحا کی تلاش ہے جو انکے دکھوں کا مداوہ کر سکے، جو بقول سرکا ر کے پچھلی حکومتوں کے عطا کردہ ہیں، موقع پرست سیاسی خاندان تحریک کی کامیابی کے لئے دو قالب یک جان ہو چکے ہیں،تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی سے زیادہ عوام کو اپنی مشکلات سے غرض ہے،جس کا ادراک وہ طبقہ نہیں رکھتا ہے، جس کا مفاد ’’سٹیٹس کو ‘‘سے وابستہ ہے، یہی تیسری دنیا کے عوام کا مقدر ہے،جس کا تذکرہ ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی تصنیف میں کیا ہے۔
عوام کا مقدر
08:30 AM, 11 Mar, 2022