تحریک عدم اعتماد کے ان فیصلہ کن لمحات میں یہ سنجیدہ بحث بھی جاری ہے کہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے یا نہیں ۔ اصولی طور پر اس بات سے اختلاف ممکن ہی نہیں ۔ کسی پارٹی کو پانچ سال کا مینڈیٹ ملتا ہے تو اس کو پورا حق ہے کہ اپنے پروگرام کے مطابق پالیسیاں ترتیب دے اور ان پر عمل درآمد کرائے ۔ تمام ریاستی اداروں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ آئین اور قانون کی حدود میں رہ کر حکومت وقت کی مدد کریں ۔ یہ کوئی احسان نہیں بلکہ سرکاری خزانے سے تنخواہیں پانے والے تمام ریاستی ملازمین کی لازمی ڈیوٹی ہے ۔ کاش ایسا ہوتا تو اب تک اس ملک کی کم ازکم سمت ہی درست ہوگئی ہوتی ۔ شرم کا مقام ہے کہ آج تک کسی بھی وزیر اعظم کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔ کسی کو گولی مار دی گئی ، کوئی پھانسی پر چڑھا دیا گیا ، کوئی بم دھماکے کی نذر ہو گیا تو کسی کو جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا ۔ آج صورتحال کچھ یوں ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان حکومت کا انجام قریب آتا دکھائی دے رہا ہے ۔کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو پورے پانچ سال ملنے چاہئے تاکہ ان کی کارکردگی سیاسی مستقبل کا ہمیشہ کے لئے فیصلہ کردے ۔ لیکن ایک بڑے طبقے کی رائے اس کے بالکل برعکس ہے ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو جتنا بھی وقت دیا جائے گا ملک کا اتنا ہی نقصان ہو گا۔ یہ دلیل بھی وزن رکھتی ہے۔ بڑے سیاستدانوں میں مولانا فضل الرحمن وہ واحد شخصیت ہیں جو الیکشن 2018 کے متنازع نتائج سامنے آتے ہی ڈٹ کر کھڑے ہو گئے تھے اور ان کا مشورہ تھا کہ کوئی بھی اپوزیشن پارٹی حلف اٹھانے کے لئے اسمبلیوں کا رخ ہی نہ کرے۔ مولانا کی یہ بات نہیں مانی گئی مگر یہ اس حد تک کارگر اور موثر تجویز تھی کہ دو سال بعد ایک موقع پر نواز شریف کو عدالت میں پیشی کے وقت میڈیا سے گفتگو کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم نے اس وقت یہ بات نہ مان کر بہت بڑی غلطی کی ۔ مولانا کی تجویز حقیقتاً ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا ۔ ایسا ہو جاتا تو عمران خان اور ان کو لانے والے دونوں ہی بہت بڑی مصیبت میں پھنس سکتے تھے ۔ بہر حال مولانا فضل الرحمن نے تو اپنا مؤقف برقرار رکھا مگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ثابت قدم نہ رہ سکے ۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک ایسی حکومت جسے ریکارڈ دھاندلی اور دھونس کے ذریعے قائم کیا گیا ہو اسے پورا وقت دینے کا مطلب کیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اپنی رضامندی سے ایسا کرنے کا ایک ہی مطلب ہے کہ اس دھاندلی اور دھونس کو تسلیم کرکے ہتھیار ڈال دئیے گئے ہیں ۔ کیا سیاسی جماعتوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ عوامی رائے کو جبراً دبا کر اپنے مرضی مسلط کرنے والوں کے خلاف جد جہد ترک کرکے بیٹھ جائیں ۔ یقیناً نہیں اگر ایسا ہی کرنا ہے تو اس سے کہیں بہتر ہے کہ سیاست چھوڑ کر کوئی اور کام کرلیا جائے ۔ اگر آپ میں احتجاج کرنا تو درکنار اپنا مؤقف تک ڈھنگ سے پیش کرنے کی ہمت نہیں تو ایسی سیاست بھی تہمت ہے ۔ قومی اخبارات کا مطالعہ کیا جائے کئی ایسے دانشور جنہیں بہت متوازن اور غیر جانبدار تصور کیا جاتا ہے ، ایک تسلسل کے ساتھ لکھ رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تبدیلی سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوگا ، اگر ملک کے حالات بدلنے ہیں تو تحریک کے ذریعے تبدیلی لانا ہوگی ۔ ایک بہت معقول اور قانون پسند شخصیت نے لکھا کہ سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھ کر بغاوت کرنا ہوگی ۔ ایک ایسے لکھاری نے جن کا جھکاؤ کسی حد تک تحریک انصاف کی جانب رہا ہے اب لکھا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بجائے زور بازو سے تبدیلی لائی جائے ورنہ پاکستان کے معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے ۔ اب ایسے میں یہ کہنا یا سمجھنا کہ وزیر اعظم عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے کا موقع ملا تو وہ پوری طرح ایکسپوز ہوجائیں گے محض خام خیالی ہے ۔ انہیں لانے والوں نے پھر سے کوئی ایسا ہی فیصلہ کرلیا اور الیکشن 2018 والا سین دُہرا دیا تو پھر کیا ہوگا ؟ اگر اپوزیشن نے جد وجہد ہی نہیں
کرنی تو کسی صاحب اختیار کو کیا پڑی ہے کہ ان پر توجہ دے یا ترس کھائے ۔ سو اصل بات یہی ہے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ پر حکومت دھونس ، دھاندلی کے ذریعے مسلط کی گئی تو روز اوّل سے اسے گرا کر اپنا اور عوام کا حق بحال کرانے کے لئے متحرک ہوجائیں ۔ افسوس جس ردعمل کی توقع تھی وہ تو دیکھنے میں نہیں آیا مگر اتنا تو ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ ایک طرف ہوکر بیٹھ گئی ۔ اب اپوزیشن یہ کہہ کر آگے بڑھ رہی ہے کہ امپائر نیوٹرل ہوگئے دوسری طرف حکومت بری طرح سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے ۔ سیاسی تبدیلی کے کھیل میں اتحادی جماعتوں سے کہیں زیادہ تیزی خود پی ٹی آئی کے ناراض ارکان دکھا رہے ہیں ۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ ٹویٹ مریم نواز نے کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’تحریک انصاف نہ ہوگئی وٹس ایپ ہوگیا ، ہر تھوڑی دیر بعد ناراض لوگ الگ گروپ بنا رہے ہیں ‘‘ ہائبرڈ سسٹم کے دوران عمران خان نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ سیاست کو دشمنی میں تبدیل کردیا ۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ ایسا کرنا اسٹیبلشمنٹ کی ہی پالیسی تھی مگر کچھ نہ کچھ اپنا دماغ بھی استعمال کرنا ہوتا ہے ۔ آصف زرداری کو بہن سمیت اور نواز شریف کو بیٹی کے ساتھ جیلوں میں پھینکا گیا ، شہباز شریف اور حمزہ شہباز قید کردئیے گئے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو پھانسی کی کوٹھری میں ڈال دیا ، رانا ثنا اللہ پر منشیات ڈال دی ۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی جیل میں ڈالنے کا پورا پروگرام تھا مگر جب دیکھا کہ مولانا کے کارکن آرام سے بیٹھنے کے بجائے سب کچھ الٹ دیں گے تو ارادہ بدلنا پڑگیا۔ محمود اچکزئی سے لے کر اسفندیار ولی تک کو برا بھلا کہا ۔ فواد حسن فواد اور احد چیمہ جیسے بیورو کریٹس کو جیلوں میں ڈالا تاکہ آئندہ کوئی افسر ترقیاتی منصوبے بنانے اور ان پر عمل کرانے کی جرأت ہی نہ کرے ۔ آزاد عدلیہ اور میڈیا کا مکو ٹھپنے کے لئے پوری توانائیاں صرف کی گئیں ۔ اپنے قریبی ساتھیوں بلکہ محسنوں جہانگیر ترین اور علیم خان کو اپنی ’’ گھریلو ضعیف الاعتقادی ‘‘ کے سبب بہت برے سلوک کا نشانہ بنایا ۔ علیم خان کو جیل میں ڈالا ، جہانگیر ترین کو گرفتار کرانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ۔ ان دونوں کے گھروں کی خواتین پر بھی مقدمات بنوائے ۔ امریکی ایجنڈے کی مکمل تعمیل کرتے ہوئے سی پیک کو ضربیں لگائیں اور چین کو ناراض کردیا ، ایجنڈے کے تحت ہی پاکستان کی معاشی خود مختاری آئی ایم ایف کے سپرد کردی گئی ، امریکہ حاضر ہوکر مقبوضہ کشمیر کا معاملہ بھی نمٹا دیا۔ پاکستان کے اندر صرف معاشی بربادی اور مہنگائی ہی نہیں پھیلائی بلکہ ذرائع آمدن اور وسائل یوں سمیٹے کہ عام آدمی اور مڈل کلاس کا جینا دشوار کردیا۔ مقبوضہ کشمیر سرنڈر کرنے کے بعد بھارت سے جنگ بندی کرلی مگر پوری کوشش کے باوجود تجارتی تعلقات قائم نہ کیے جاسکے ۔ دوسری طرف ٹریک ٹو ڈپلومیسی جاری ہے اور پوری کوشش کی جارہی ہے کہ مودی کسی طرح پاکستان کا دورہ کرلے ۔ جعلسازی کرتے ہوئے اوپر ہی اوپر بھارت مخالف بیانات دئیے جاتے ہیں مگر حقیت یہ ہے کہ ، مودی فون سننے کو تیار نہیں ۔افغانستان کا معاملہ درست طریقے سے ہینڈل نہ کرنے کے سبب آج سب خدشات وہیں کے وہیں ہیں ۔ اب تو ہمارے سیکرٹری دفاع نے بھی کہہ دیا ہے کہ افغان بارڈر پر باڑ عارضی ہے۔ مقاصد پورے ہوتے ہی ہٹا لیں ۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان طالبان باڑ کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ۔ بیرون ملک سے عجیب و غریب مشیر درآمد کرکے ملک کو ان کے حوالے کر کے سکیورٹی خطرات میں اضافہ کیا گیا ، کابینہ میں بیٹھے افراد سمیت کئی حکومتی شخصیات نے خوب لوٹ مار کی ۔ملک بھر میں مافیاز دندناتے رہے، احتساب کے نام پر صرف اور صرف سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا ۔ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے مسائل اور وزیر اعظم عمران خان کی غیر ضروری مصروفیات کے سبب آخر وہ مرحلہ آن پہنچا جب حکومت کو گرانے کے لئے بڑے پیمانے پر سنجیدہ کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو اپنا بویا خود کاٹنا ہے ۔ بچائو کی کوئی صورت نہیں ۔ اگر وہ اور ان کے ساتھی یہ سمجھتے ہیں کہ کپتان پھر سے سڑکوں پر آئے گا اور طوفان کھڑا کردے گا تو اسے دیوانے کا خواب ہی کہا جاسکتا ہے ۔ ملک کی مختار فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت کے باوجود 2014 کا پرتشدد دھرنا کامیاب نہ ہوسکا ۔ سازش بعد میں بھی اسی وقت کامیاب ہوئی جب اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کے ذریعے وار کیا۔ پورے ادارے کپتان کی فل سپورٹ میں چھوڑ کر 2018 کے الیکشن میں بھیجا گیا مگر وہاں بھی کامیابی نہ مل سکی ۔ گن پوائنٹ پر نتائج بدلے گئے آرٹی ایس سسٹم بٹھایا گیا ، ٹائوٹ ججوں ، نیب کو استعمال کیا گیا ، اس تمام عمل کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی ۔ توڑ جوڑ کرکے حکومتیں بنائی گئیں ، سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے اور زبان بندی کے لئے ہر منفی بلکہ گھٹیا ہتھکنڈہ استعمال کیا گیا ۔اس سب کے بعد بھی اگر وزیر اعظم عمران خان حکومت میں نہ چل سکے تو اپوزیشن میں آکر کون سا تیر چلا لیں گے۔کپتان نے اپنے زبان و بیان سے پوری ایک نسل کو گمراہ کیا ہے ۔ سیاسی طور پر ناخواندہ طبقے کو تبدیلی کے نام پر سبز باغ دکھائے ۔ اب فل سٹاپ لگ چکا۔ عام خیال یہی ہے کہ حکومت کے ہٹتے ہی فوری بعد موجودہ حکومتی شخصیات کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو جائے ۔ مقدمات کی فائلیں تیار ہو رہی ہیں ۔ احتجاج کرنے اور تحریک چلانے کی نوبت ہی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی کی صورت میں اگلی حکومت کے لئے بھی بے شمار چیلنجز ہیں ۔ اعدادوشمار اور گرد و نواح کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ عمران حکومت نے جو کام ڈالنا تھا ڈال چکی ۔آگے راستہ ہموار نہیں ۔ عمران خان پچھلے حکمرانوں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ راستے میں بارودی سرنگیں چھوڑ گئے مگر جو کچھ عمران خان نے چھوڑا ہے وہ ایٹم بم سے کم نہیں ۔