اسلام آباد : سینیٹ میں آج اہم دن ہے۔ 52 سینیٹرز اپنی 6 سال کی مدت پوری کرکے آج ریٹائر ہو رہے ہیں. ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں مسلم لیگ (ن) کے سب سے زیادہ 16 ، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے 7،7 سینیٹرز ریٹائر ہوں رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے پنجاب سے 11، اسلام آباد، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے 2 ، 2 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے۔ ان میں راجا ظفر الحق، پرویز رشید، یعقوب خان ناصر، راحیلہ مگسی، آغا شاہزیب درانی، عائشہ رضا فاروق، چوہدری تنویر، اسد اشرف، غوث نیازی، صلاح الدین ترمزی، عبدالقیوم، جاوید عباسی، نجمہ حمید، پروفیسر ساجد میر اور سلیم ضیا شامل ہیں۔
پیپلز پارٹی کے 7 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے جن کا تعلق سندھ سے ہے۔ ان میں رحمان ملک، فاروق ایچ نائیک، گیان چند، اسلام الدین شیخ، سلیم مانڈوی والا، سسی پلیجو اور شیری رحمان شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کے ریٹائرڈ ہونے والے تمام 7 سینیٹرز کا تعلق خیبر پختوانخوا سے ہے جن میں کینتھ ولیمز، لیاقت ترکئی، محسن عزیز، نعمان وزیر، ثمینہ سعید، شبلی فراز اور ذیشان خان زادہ شامل ہیں۔
ایم کیو ایم کے سندھ سے 4 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے جن میں عتیق شیخ ، خوش بخت شجاعت، محمد علی سیف اور نگہت مرزا شامل ہیں جب کہ جمعیت علما اسلام (ف) کے 2 سینیٹرز مولانا عطا الرحمان اور مولانا غفور حیدری ریٹائر ہو جائیں گے۔
جماعت اسلامی کے سراج الحق، اے این پی کی ستار ایاز ریٹائر ہو جائیں گی۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 2 سینیٹرز عثمان خان کاکڑ اور گل بشری ریٹائر ہو جائیں گے جب کہ بی این پی مینگل کے جہانزیب جمال دینی بھی ریٹائر ہونے والوں میں شامل ہیں۔
بلوچستان سے ایک آزاد رکن یوسف بادینی ریٹائر ہو جائیں گے جب کہ فاٹا سے 4 آزاد ارکان اورنگزیب اورکزئی، مومن آفریدی، ساجد طوری اور تاج آفریدی ریٹائر ہوں گے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے خالد بزنجو، سرفراز بگٹی، منظور کاکڑ، نصرت شاہین ریٹائرڈ ہو جائیں گے جب کہ نیشنل پارٹی کے میر کبیر، اشوک کمار بھی ریٹائر ہو جائیں گے۔
ان سینیٹرز کے ریٹائر ہونے پر کل نومنتخب 48 سینیٹرز حلف اٹھائیں گے جس کے بعد چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہوگا۔ ایوان بالا میں تحریکِ انصاف نے 26 نشستیں اپنے نام کی ہیں۔ پیپلز پارٹی 20 سینیٹرز کے ساتھ سینیٹ کی دوسری جبکہ ن لیگ 18 نشستوں کے ساتھ تیسری بڑی جماعت ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی 13، جمعیت علمائے اسلام 5 نشستیں حاصل کرچکی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے 3 اور عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے 2، 2 سینیٹرز نشستیں سنبھالیں گے۔
ق لیگ، فنکشنل لیگ اور جماعتِ اسلامی نے سینیٹر کی 1، 1 نشست پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔ پی کے میپ اور بلوچستان نیشنل پارٹی کا بھی 1، 1 سینیٹر ایوانِ بالا میں ہوگا۔ ایوان میں آزاد سینیٹرز کی تعداد 6 ہوگئی ہے جن میں سے 4 کا تعلق سابق فاٹا سے، جبکہ 2 نو منتخب سینیٹرز بلوچستان سے ہیں۔
سینیٹ میں اپوزیشن اتحاد (پی ڈی ایم) کو ایک بار پھر اکثریت حاصل ہے۔سندھ سے پیپلز پارٹی نے 11 میں سے 7 نشستیں جیت لیں۔ تحریکِ انصاف اور ایم کیو ایم نے 2، 2 نشستیں جیتیں۔ پی ٹی آئی امیدوار فیصل واؤڈا اور ایم کیو ایم رہنما فیصل سبزواری بھی سینیٹرز بن گئے۔
ٹیکنو کریٹ نشست پر فاروق ایچ نائیک اور سیف اللہ ابڑو کامیاب ہوئے۔ خواتین کی نشستوں پر پی پی پی امیدوار پلوشہ خان اور ایم کیو ایم پاکستان کی رہنما خالدہ اطیب کامیاب ہوئیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف نے 10 نشستیں اپنے نام کر لیں۔ شبلی فراز، لیاقت ترکئی اور محسن عزیز کامیاب ہوگئے۔
خواتین نشستوں پر ثانیہ نشتر اور فلک ناز جیت گئیں۔ کے پی کے ٹیکنو کریٹ نشست پر دوست محمد اور ہمایوں مہمند کامیاب رہے۔ اقلیتی نشست پر تحریکِ انصاف کے گردیپ سنگھ نے میدان مار لیا۔ بلوچستان اسمبلی میں بھی حکومتی اتحاد کامیاب رہا۔ منظور کاکڑ، سرفراز بگٹی اور پرنس عمر زئی کامیاب رہے۔
عبدالغفور حیدری، قاسم رونجھو اور عمر فاروق بھی سینیٹرز بن گئے۔ جنرل نشست پر آزاد امیدوار عبدالقادر نے میدان مار لیا۔ ٹیکنو کریٹ نشست پر سعید ہاشمی اور کامران مرتضیٰ کامیاب ہوئے۔ خواتین نشستوں پر ثمینہ ممتاز اور نسیمہ احسان جیت گئیں۔ اقلیتی نشست پر بی اے پی کے دنیش کمار منتخب ہوئے۔ پنجاب سے سینیٹ کے 11 امیدوار پہلے ہی بلامقابلہ منتخب ہوچکے تھے۔
اس وقت اپوزیشن اتحاد کو 52 اور حکومتی اتحاد کے پاس 48 ووٹ ہیں ۔۔جماعت اسلامی کا ووٹ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ حکومت صادق سنجرانی اور اپوزیشن یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین منتخب کرانے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔