لاہور: آج کل خودکشی کا رجحان اتنا عام ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان میں ہی نہیں بل کہ پوری دنیا میں آئے روز خودکشی کے واقعات رونما ہورہے ہیں، حالاں کہ اس نامناسب اقدام کو کسی بھی سماج اور معاشرے میں بھی اچھی نگاہ سے بالکل بھی نہیں دیکھا جاتا۔
یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ ملکی قانون میں یہ اقدام بہ ذات خود کوئی بُرا نہیں ہے اور نہ قابل مواخذہ ہے البتہ اقدام خودکشی کو ضرور جرم قرار دیا گیا ہے گویا کہ کوئی شخص خودکشی کی کوشش کرے اور کسی وجہ سے وہ اس میں ناکام ہوجائے تو ایسی صورت میں اسے سزا دی جائے گی۔ اس کے مقابلے میں اسلام کی تعلیم اس کے برعکس ہے اور وہ اس عمل کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دیتا۔
مصائب و آلام اور ناکامی وقتی ہوتی ہے، یہ کبھی تو جلد رفع ہوجاتی ہیں اور کبھی وقت لگتا ہے۔ اﷲ نے انسان کو دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور اپنی عبادت کے لیے اس دنیا میں پیدا کیا ہے تو پھر کیوں نہ اس کے حکم کی تعمیل کی جائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو کفران نعمت ہے اور بزدلی بھی ہے جو مومن کی شان کے خلاف ہے۔ کون انسان کب تک زندہ رہے گا اور کب اس کی موت واقع ہوگی یہ صرف اﷲ ہی جانتا ہے اور زندگی دینے والے کو ہی موت دینے کا اختیار ہے۔ انسان کے بس میں اگر یہ اختیار ہوتا تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا۔
خودکشی کرنے والے کی نمازجنازہ پڑھی جائے یا نہیں ؟ اس کے متعلق قرآن و حدیث میں کوئی واضح صراحت نہیں ملتی۔ اسی وجہ سے اس مسئلے میں فقہائے کرام اور علمائے امت کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور بعض کے نزدیک ادا نہیں کی جائے گی۔ جب کہ درست یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی نماز پڑھی جانی چاہیے البتہ مسلمانوں کے ذی وجاہت اور سربرآوردہ لوگ چاہیں تو اس میں شریک نہ ہوں۔ اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ مومن گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے کافر نہیں ہوتا جو شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا اس کے لیے دعائے مغفرت کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔