اوئے کلچر سے پھٹیچر تک ۔۔ ہمارے بدلتے سماجی رویئے

11-Mar-17

گزشتہ تین چار ماہ کے دوران پاکستانی سوشل میڈیا یوزرز کی پوسٹس کا شماریاتی جائزہ (Statistical Analysis) لیا جائے تو اسی فیصد سے زائد نے انہی دو چار موضوعات پر ہی خامہ فرسائی کی ہو گی اور اپنے جملہ مدرکات و محسوسات کی سرگرمی انہی موضوعات پہ صرف کی ہو گی.

مجال ہے جو کوئی خامہ خراب فلکیات، حکمیات، فلسفہ، مصوری، شعر و ادب یا کسی اور معاشرتی مسلے پر لکھے, سوچے یا نشاندہی کرے.
عموماً تصور کیا جاتا ہے کہ میڈیا نے ہمیں سوچ اور اظہار کی آزادی دی ہے. مگر یہ کیسی داغ داغ آزادی ہے کہ تخیل کا کینوس روز روز سکڑتا جارہا ہے. نئے مضامینِ خیال اب قلب و اذہان پر اترتے نہیں. رات آٹھ بجے سے دس بجے کے درمیان دس بارہ "پھٹیچر" سے لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ آنے والے دو چار دنوں میں ہم نے کیا سوچنا ہے اور کیا بولنا ہے. رائے دینے کے شوق نے ہر مسخرے کو "صاحب الرائے" ہونے کے گمان میں مبتلا کر دیا ہے. مستزاد اس پر ہر شخص فقط انہی دو چار موضوعات تک ہی اپنی رائے کو محدود رکھتا ہے جن کو میڈیا رواج دے رہا ہوتا ہے یا جس کو میڈیا بیچنا چاہتا ہے یا جس پر کمنٹس اور لائیکس کی بوچھاڑ سے نرگسیت Narcissism کو تسکین ملنے کی امید ہو. جو fashion statement سے لگا کھاتے ہوں. جو ذرا فری-مارکیٹ میں Hip Thing ہوں. چاہے اس کی کوئی فکری، نظری اور حکمیاتی ویلیو نہ ہو بس بِکنا ضروری ہے.
یوں محسوس ہوتا ہےکہ میڈیا نے ہمیں ڈاروینین(Darwanian)بندروں کا ایک ہجوم بنا دیا ہے جو ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی رائے دینے کے سرکس میں مسلسل مبتلا ہیں.

سیانے لوگ سچ ہی کہتے ہیں کہ پوسٹ ماڈرن ازم مربوط نظرئیے اور بیانیے کی موت کا دور ہے. اب کسی بھی مقدمے کو اس کی intellectual value کی بجائے standardized presentation اور emotional value کی بنیاد پر جانچا جائے گا. رولاں بارتھیس نے تو فقط death of author کا بگل بجایا تھا. اس دور میں تو death of thinker اور death of content کا بِگل بج چکا ہے.
جن نفسی کیفیات کا تعلق انسانی اقدار سے ہوتا ہے وہ رویے کہلاتی ہیں.ماہرین سماجیات اور نفسیات کا پسندیدہ موضوع انسان کے عمومی اور اجتماعی رویوں پر اس کے ارد گرد کے ماحول کے اثرات کا مطالعہ رہا ہے آج کا دور تو میڈیا کا دور کہلاتا ہے ماہرین ابلاغیات بھی اب سماجیات اور نفسیات کے مسلمہ اصولوں اور نظریات کو بروئے کار لا کر میڈیا کے انسانی رویوں پر اثرات کا مطالعہ کر رہےہیں.ابلاغ عامہ کے ایک استاد کی حیثیت سے یہ میرا پسندیدہ موضوع ہے۔دو اڑھائی برس پہلے جب پاکستان کی نوجوان نسل کے لیے اوئے کلچر متعارف ہوا اس وقت بھی میں نے اپنے کالموں اور لیکچرز میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ملک کے تہذیبی اثاثے کا دیوالیہ نکلنے والا ہے.اسی دور میں میڈیا کو بھی تقسیم کیا گیا کیونکہ اسی میڈیا کے اتحاد نے دو ہزار سات میں ایک تاریخ رقم کی تھی جس کی سماجیات اور سیاسیات کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی. اب میڈیا میں خود اتنی تقسیم ہے اور اتنی ہی ہمارے سماج میں ہو چکی ہے اور اسی سماجی رویے کی اظہار دانائے راز حضرت علامہ بانگ درا میں کر رہے ہیں۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا


ڈاکٹر وزیر آغا کے نزدیک کلچر,نئی اقدار کے اظہار کی ایک صورت ہے جبکہ ان اقدار کا عوام کی سطح پر قبول کرنے کا عمل,تہذیب کا عمل ہے.اس میں (imitation) یعنی نقل کا بے حد عمل دخل ہے یہ دماغ سے دماغ کی طرف عمل کرتا ہے اور کلچر کو بڑے پیمانے پر پھیلانے کا باعث بنتا ہے.ماہرین کے مطابق وہ خطے جہاں آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے جیسے ہمارے ایشیائی ممالک,یہاں کے لوگ عقل و شعور سے کہیں زیادہ جذبات کی سطح پر رہتے ہیں اور جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے جذبات کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اسی لیے اکثر لوگ مذہب یا مطالعے کی طرف دلچسپی بڑھا لیتے ہیں اور تزکیہ باطن کی صورت پیدا ہو جاتی ہے مگر بعض لوگوں پر اس کے برعکس اثر ہوتا ہے وہاں خود غرضی اور جذباتیت,زود رنجی اور دشنام طرازی کو فروغ ملتا ہے.

انٹرنیٹ پر سوشل میڈیائی یلغار اور متعدر ٹی وی چینلرز کی مقابلہ بازی سے سستی نقالی کا رجحان معاشرے میں ایک سماجی بیماری کی صورت اختیار کر گیا ہے.

ماہرین سماجیات کو اس طرف سوچنے کی ضرورت ہے اس حوالے سے میں نے سماجیات,ابلاغیات,انسانیات اور نفسیات کے مسلمہ اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان مختلف علوم کے نظریات کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک نیا سبجیکٹ متعارف کروایا ہے اس کا نام میں نے ابلاغی نفسیات رکھا ہے,اس حوالے سے میری کتاب بھی موجود ہے ابھی اس پر بہت کام ہونا باقی ہے.

نیو کومب کہتا ہے کہ ہمارے رویوں کا تعلق ہمارے افعال سے ہوتا ہے اسی طرح ہماری رائے کا ہماری عقیدت سے. رویوں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کوئی شخص کس قسم کا عمل کرے گا اس کا ردعمل کیا ہو گا.

اوئے کلچر کے اثرات جو ہمارے معاشرے نے قبول کر لئے اور ہمارے جزبات کے اظہار کا ذریعہ بنے زیادہ اثرات نوجوانوں نے قبول کئے جن میں جذباتیت کا تناسب زیادہ ہوتا ہے اور اب اس کا اگلا مرحلہ مکے کی صورت میں سامنے آیا ہے اگر کسی نے بدزبانی کی تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا اس کلچر کا آغاز کس نے کیا.اگر اب دوسرا فریق آپ ہی کی عنایت کردہ روایت کا استعمال کرتا ہے تو غصہ کس بات کا.اور اب آپ نے مکا دھر دیا اور دلچسپ بات یہ  کہ بجائے اس کی مذمت کی جاتی اس کی حوصلہ افزائی کر کے ایک نئے معاشرتی رویے کی طرح ڈالی گئی ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ آپ کا بچہ گلی محلے میں کسی کو پیٹ کر آتا ہے اور آپ اس کو سمجھانے کے بجائے تھپکی دیتے ہیں تو وہ بچہ بڑا ہو کر کیا بنے گا اس کا سماجی رویہ کیا ہو گا اپنے دوست احباب کے ساتھ, اپنے بیوی بچوں اور معاشرے کے ساتھ اس کو سمجھنے کے لیےکسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے اور اس کے ذمہ دار اس کے والدین ہونگے.

نوٹ: بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں
 

صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،     

محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں

مزیدخبریں