کوئی پلان بی نہیں تھا اسی لیے   9ماہ کا آئی ایم ایف سے سٹینڈ بائی معاہدہ کیا تھا: وزیر خزانہ

کوئی پلان بی نہیں تھا اسی لیے   9ماہ کا آئی ایم ایف سے سٹینڈ بائی معاہدہ کیا تھا: وزیر خزانہ
سورس: screen grab

اسلام آباد :وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کاکہنا ہے کہ  کوئی پلان بی نہیں تھا اسی لیے   9ماہ کا آئی ایم ایف سے سٹینڈ بائی معاہدہ کیا تھا۔ وزیر خزانہ  محمد اورنگزیب   مالی سال 25-2024 کا اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے کہا کہ    کوئی پلان بی نہیں تھا اسی لیے   9ماہ کا آئی ایم ایف سے سٹینڈ بائی معاہدہ کیا تھا۔ 


وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے معاشی ٹیم کے ہمراہ اکنامک سروے پیش کرتے ہوئے کہا کہ 23-2022 کے مالی سال کا جہاں اختتام ہوا تو اس وقت جی ڈی پی میں 2فیصد سکڑاؤ آیا تھا، اسی سال پاکستانی روپے کی قدر میں 29فیصد کی کمی واقع ہوئی اور غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر اتنے کم رہ گئے کہ ہم صرف دو ہفتوں کی درآمدات کر سکتے تھے۔


 وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ جب مالی سال 24-2023 شروع ہوا تو اس وقت میں پرائیویٹ سیکٹر میں تھا۔ میں نے کہا کہ ہمیں آئی ایف ایم کے پاس جانا چاہیے کیونکہ ہمارے پاس پلان بی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کو ترجیح دی۔ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جاتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ اگر ہم 9 ماہ کا معاہدہ نہ کرتے تو اس وقت ٹارگٹ طے نہیں کر رہے ہوتے۔ 


وزیر خزانہ نے کہا کہ لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی گروتھ پراثر پڑنا تھا اور وہ پڑا ہے، مگر زرعی شعبے کی گروتھ حوصلہ افزا ہے، ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے جو بے مثال ہے۔لوگ کہہ رہے تھے کہ ڈالر 350 کا ہوجائے گا، رواں سال روپے کی قدر میں استحکام رہا۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ کرنسی میں استحکام آیا، نگران حکومت نے ہنڈی اور اسمگلنگ کو روکا۔ کرنسی میں بہتری آئی، سٹیٹ بینک نے بھی اقدامات کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ پرائمری سرپلس رہا ہے اور اس میں صوبوں کو بھی کریڈٹ جاتا ہے،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 6 ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا جا رہا تھا اور اس وقت صرف 200ملین ڈالر ہے، رواں مالی سال کے دوران چند مہینے ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ 3 فیصد سرپلس میں بھی رہا ہے، کرنسی میں استحکام آیا ہے اس کی بڑی وجوہات میں نگران حکومت کے انتظامی اقدامات ہیں، نگران انتظامیہ نے ہنڈی حوالہ اور اسمگلنگ کو روکا گیا اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا جائزہ لیا گیا۔انہوں نے کہا کہاسٹیٹ بینک نے ایکسچینج کمپنیوں کو ضروریات تھیں وہ بڑھائیں اور سٹرکچرل کردار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس وصولی میں 30فیصد کی نمو دیکھی گئی ہے جس کی اس سے قبل مثال نہیں ملتی، یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ جاری کھاتوں کا خسارہ اس مالی سال میں 6ارب ڈالر ہو گا اور اس وقت نئے مالی سال کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا تخمینہ 20کروڑ ڈالر لگایا گیا گیا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ مہنگائی میں کمی کے باعث شرح سود میں کمی کی گئی۔ جی ڈی پی میں ٹیکسوں کی شرح بڑھانی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم ڈیفالٹ ہونے والے تھے لیکن اس وقت ہمارے پاس 2ماہ کی درآمدات کے پیسے موجود ہیں جس کی مالیت 9ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کا معیار بہت شاندار ہے جس کی بدولت ہم اگلے مالی سال کا بہت اچھے اور مضبوط نکتے پر آغاز کریں گے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام اور آئی ایم ایف شراکت داری کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا، پسماندہ طبقے پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا انہیں تحفظ دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ بجلی کے نرخوں اور شرح سود کے اثرات ایل ایس ایم پر آنے تھے، ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے سب کو ملک کی ترقی اور ریونیو میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا، خیرات اور بھیک سے ملک نہیں چل سکتے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ دو ایسے شعبے ہیں جن کا آئی ایم ایف سے کوئی تعلق نہیں ہے، زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ایسے شعبے ہیں جن پر 100 فیصد ہمارا کنٹرول ہے اور زرعی پیداوار کیسے بڑھانی ہے یہ سب ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح 48فیصد کی بلند ترین شرح پر پہنچ چکی تھی لیکن اب مئی میں 11.8فیصد کا عدد مئی میں آیا ہے، میرے خیال میں یہ بہت اہم ہے، اسی کی وجہ سے بنیادی مہنگائی کے ساتھ ساتھ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی کمی آئی ہے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ مہنگائی میں کمی کی وجہ سے ہی گزشتہ روز پالیسی ریٹ میں کمی کی گئی، مانیٹری پالیسی کا اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر ہے اور ان کا اندازہ ہے کہ یہ اگلے مالی سال کے آغاز میں یہ کم ہو کر 10فیصد سے کم ہو جائے گا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پالیسی ریٹ میں بتدریج کمی آنی چاہیے۔


واضح رہے کہ  اقتصادی سروے کے مطابق صنعتی ترقی کی شرح 1.21 فیصد رہی، خدمات کے شعبے میں ترقی شرح 1.21 فیصد رہی۔اس میں بتایا گیا کہ فی کس آمدنی 1680 ڈالر رہی۔ سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 13.1 فیصد رہی۔سروے کے مطابق رواں مالی سال میں بچتوں کی شرح 13 فیصد رہی۔
اقتصادی سروے میں بتایا گیا کہ ایک سال میں گھوڑوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔ ملک میں گھوڑوں کی تعداد 4 لاکھ تک ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح ایک سال میں اونٹوں کی تعداد میں بھی اضافہ نہیں ہوا۔بکریوں اور بکروں کی تعداد میں 2 کروڑ 2 لاکھ کا اضافہ ہوا۔ بھیڑوں کی تعداد میں ایک سال میں 40 لاکھ کا اضافہ ہوا۔
ملک میں ایک سال میں گدھوں کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ملک میں گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو بڑھ کر 59 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔سروے میں بتایا گیا کہ گزشتہ مالی سال ملک میں گدھوں کی تعداد 58 لاکھ تھی جبکہ مالی سال 22-2021 میں گدھوں کی تعداد 57 لاکھ تھی۔


 

مصنف کے بارے میں