لاہور: سپیشل سینٹرل کورٹ لاہور نے منی لانڈرنگ کیس میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی عبوری ضمانتوں کی توثیق کر دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپیشل سینٹرل کورٹ لاہور نے منی لانڈرنگ کیس میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف کی عبوری ضمانتوں سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا ہے جس کے مطابق دونوں کی عبوری ضمانتوں کی توثیق کر دی گئی ہے۔
عدالت نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کیساتھ ساتھ دیگر ملزمان کی عبوری ضمانتیں بھی کنفرم کر دی گئی ہیں اور شریک ملزمان کو 2,2 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ آج سپیشل سینٹرل کورٹ لاہور میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہوئی تھی جس دوران وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت نے شہباز شریف ،حمزہ شہباز سمیت دیگر کی حاضری لگانے کا حکم دیا۔
دوران سماعت وزیراعظم شہباز شریف نے روسٹرم پر آکر بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ مجھ پر سنگین الزامات لگائے گئے اور میں نے درجنوں پیشیاں بھگتی ہیں جبکہ ایف آئی اے نے میری گرفتاری کا کوئی راستہ نکالنے کیلئے چالان میں تاخیر کی۔
جج نے وزیراعظم شہباز شریف سے سوال کیا کہ شوگر ملز میں آپ کا کوئی شیئر نہیں ہے؟ جس پر شہباز شریف نے کہا کہ شوگر مل کا ڈائریکٹر ہوں نہ مالک نہ شیئر ہولڈر، میں نے منی لانڈرنگ کرنی ہوتی ، کرپشن کرنی ہوتی تو میں قانونی طور پر جو فائدہ لے سکتا تھا وہ لے لیتا۔
شہباز شریف نے عدالت میں کہا کہ میں نے منی لانڈرنگ کر کے منہ کالا کرانا ہوتا تو خاندان کی شوگر ملوں کو نقصان کیوں پہنچاتا؟ میں نے شوگر ملز کو سبسڈی نہیں دی تاکہ قومی خزانے پر بوجھ نہ پڑے بلکہ میں نے یتیموں اور بیواو¿ں کے خزانے کو ان ہی کیلئے استعمال کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ ایف آئی اے نے جتنے بھی فیکٹس بتائے ہیں جھوٹے ہیں، میں نے 12-2011ء میں بے روزگار، غریب بچے بچیوں کو بولان گاڑیاں دیں، 2015 میں ہم نے 50 ہزار گاڑیوں کا منصوبہ شروع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں کیس ٹرانسفر ہونے سے پہلے درجنوں بار پیش ہوا،جب میں اپوزیشن میں تھا تو نیب اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ گیا ہی نہیں جبکہ پراسیکیوشن نے کہا کہ یہ منی لانڈرنگ اور کرپشن کا کیس نہیں ہے، میرے خلاف سارا جھوٹ پلندہ کا ہے، جس پر منوں مٹی پڑے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ میرے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد کیس بنایا گیا، میں نے ایف آئی اے سے کہا کہ میں زبانی جواب نہیں دوں گا بلکہ وکلا کی مشاورت کے بعد جواب دوں گا، میں جب عقوبت خانے میں تھا تو ایف آئی اے نے دو مرتبہ تحقیقات کیں۔