ایک طرف وہی سردار،قوم پرست لیڈر، جاہ جلال کے مالک مذہبی راہنمائ،انسانوں کے مقدر پر بنے خداوڈیرے ،ازل سے سیاسی اکھاڑے میں اترنے اور انتخابات کے سیاسی رموزواوقاف جاننے والے تجربہ کار کھلاڑی جنہوں نے قومیت کے نام پر ہی ہمیشہ اپنا سیاسی چورن بیچا ہے تو دوسری طرف بے یارومدد گار نیم خواندہ، اَن پڑھ مچھیرے،جن میں سے بعض امیدواروں نے پہلی دفعہ بلدیاتی انتخاب میں حق رائے دہی استعمال تو کیا مگر مکران ڈویژن میں نئی تاریخ رقم کردی اور بڑے بڑے سیاسی برج الٹ دیئے، سیاسی اتحاد نے جن سے شکست کھائی اِنکی تو کوئی سیاسی تربیت بھی نہ تھی، وہ تو پہلی دفعہ انتظامی، قانونی، معاشی،سماجی ناانصافیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلندکرنے کے لئے’ حق دوو تحریک“ کے پلیٹ فارم سے اپنے حقوق کے لئے نکلے تھے،انکا قائد نہ تو آکسفورڈ کا فارغ التحصیل تھا، نہ ہی ایچ ای سی کا پڑھا لکھا،اسکی قابلیت یہ تھی کہ وہ بھی ایک مچھیرے کا مگر تعلیم یافتہ بیٹا تھا،اس نے تحریک کی قیادت کی تھی۔
جب اس نے محسوس کیا کہ بڑے سرداروں، سرمایہ داروں نے انکے مسائل سے جان بوجھ کرصرف نظر کیا ہے وہ ووٹ کی طاقت کی بنیاد پر اپنا اقتدار قائم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، انکے اپنے اپنے ذاتی مفادات ہیں، یہ قومیت کے نام پر مقتدر قوتوں کو دباﺅ میں رکھ کر اپنا مفاد اٹھانا چاہتے ہیںاسکی آڑ میں اپنے وسائل میں اضافہ کرنے ہی کو سیاست جانتے ہیں، تو اس نے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔
گوادر پورٹ کو سنگا پور ،دوبئی بنانے کے محسور کن خواب دکھانے والوں کے جھانسے میں بھی وہ نہ آیا، اسکی نہ تو فایﺅ سٹار ہوٹل کے یہاں قیام میں دلچسپی تھی نہ گالف کلب ان مچھیروں کی ضرورت تھی،وہ اس بحث میں بھی نہیں الجھا کہ کون گوادر کی قیمتی زمین کو کوڑیوں کے بھاﺅ بیچ یا خرید رہا ہے، اس نے سستی شہرت کے لئے قومیت کا کارڈ بھی نہیں کھیلا نہ ہی اپنے پیروکارو کو خود کش بمبار بنانے کی ترغیب دی۔
اس مرد قلندر نے سیاسی پر امن غیر مسلح جدوجہد کا آغاز ”حق دو گوادر کو تحریک “سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا گوادر اس کا مرید بن گیا، بوڑھے ،بچے، جوان،خواتین، طالبات نے اسکی آواز پر لبیک کہا،اور یہ بلوچستان کی ایک بڑی تحریک بن گئی،اسکی باز گشت عالمی سطح پر بھی سنی گئی، برینڈڈ میڈیا نے اسکو کوریج دی۔
تحریک کا مثبت پہلو یہ ہے کہ مقبولیت کے باوجود اس پلیٹ فارم سے ریاست مخالف کوئی نعرہ بلند نہ ہوا، کسی مقرر نے قومی اداروں کے خلاف زہر نہیں اُگلا، کسی صوبہ کو اپنی محرومیوں کا الزام نہیں دیا، قیادت نے صرف وہی چند مطالبات حکومت کے سامنے رکھے جو گوادر کی عوام کو درپیش تھے۔
اس تحریک کا آغاز گزشتہ سال ماہ نومبر میں ہوا،ایک ماہ سے زائد تک دھرنا نے صوبائی حکومت کو ان سے تحریری معاہدہ کرنے پر مجبور کر دیا، دلچسپ امر یہ ہے کہ اس معاہدہ میں بھی کسی غیر سیاسی قوت کی ضمانت طلب نہیں کی گئی سارا عمل سیاسی انداز میں ہوا، گوادر جیسے حساس مقام پر یہ قابل توجہ عوامی تحریک تھی جس کے ڈانڈے غیر ملکی اداروں سے نہیں ملتے تھے، اس کی قیادت کرنے والے درویش مولانا ہدایت الرحمان کا تعلق جماعت اسلامی پاکستان سے تھا، یہ انکی تربیت کا فیض تھا کہ انھوں نے اپنی کمیونٹی کے مفاد کے لئے صاف شفاف سیاسی راستہ اختیار کیا، انکے سیاسی وژن کی بدولت عوام نے ان پر اعتماد کیا تھا، انھوں نے اپنے فالورز کو اندھیرے میں نہیں رکھا دن کی روشنی میں سب کے سامنے تحریری معاہدہ کیا اور پھر عمل درآمد تک اس پر پہرہ دیا، گوادر کے باسیوں کے مطالبات منوا کر انکے لئے روزگار کی فراہمی کی رکاوٹیں دور کیں۔
گوادر کے عوام نے بھی اس وفاداری کا مان رکھا اور اس تحریک کو جس کو جماعت اسلامی کی حمایت حاصل تھی حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بھاری کامیابی دلوا کر اس تعلق کو اور مضبوط کر دیا، مولانا فرماتے ہیں کہ انکے کامیاب امیدواروں میں کوئی جوس فروخت کرنے والا ہے تو کوئی مزدوری کرنے والا، ایک ایسا صوبہ جہاں صدر مملکت سے وزراءاعظم تک وڈیروں ، سرداروںکی یاترہ محض صوبہ میں امن وامان برقرار رکھنے اور سیاسی اتحاد کے لئے لازم خیال کرتے تھے وہاں گوادر سے عام مچھیروں کا مقامی انتخابات میں مئیر کی نشست پر براجمان ہونا ہوا کے تازہ جھونکے کے مترادف ہے اور ان سرداروں پر عدم اعتماد ہے جنہوں نے صوبائی وسائل کو صرف اپنے خوشامدیوں تک محدود رکھا اور بدعنوانیوں پر اکتفا کیا ہے،جان بوجھ کر قومیت کے پروپیگنڈہ کو پروان چڑھایا ہے، اپنے بچوں کو تو دریار غیر میں اعلیٰ تعلیم دلائی انھیں بہترین روزگار دلایا مگر مچھیروں کے تعلیم یافتہ بچوں کی حیاتی بے روزگاری سے تنگ کر دی۔
مولانا ہدایت الرحمان نے ان بدعنوانیوں پر سے بھی پردہ اٹھایا ہے جو اس علاقہ میں مقتدر کلاس کی طرف سے جاری ہیں جن کا تذکرہ زد عام ہے، انھوں نے کہا کہ میری تربیت جماعت اسلامی نے کی تھی ورنہ اپنے پیروں کاروں کے ساتھ وہ بھی پہاڑوں پر چڑھ جاتے اور نسل نو گمراہ کرتے ، انھیں نفرت کا درس د یتے مگر انھوں نے ان کے لئے سیاسی اور آئینی اور پر امن راستہ چنا ہے، قادر مطلق نے انھیں اپنے ساتھیوں سمیت انتخابات میں فتح سے ہمکنار کیا اور چار جماعتی اتحاد کو شکست دے کر یہ پیغام بھی دیا کہ اب ڈرائنگ روم کی سیاست نہیں چلے گی،عوام کو تادیر غلام نہیں رکھا جاسکتا۔
وہ منصوبہ سی پیک جس کی دنیا بھر میں دھوم ہے، جسکی کامیابی کا انحصار اس شہر میں قیام امن، مقامی آبادی کے تعاون سے عبارت ہے ،مقام حیرت ہے کہ اس کے باسی بنیادی ضروریات صاف پانی، بجلی،تعلیم ہی سے محروم ہیں جس کی فراہمی کے لئے تحریک بپا کی گئی تھی۔
تحریک میں شامل تعلیم یافتہ نفیسہ بلوچ کا کردار بھی لائق تقلید ہے جو تحریک کے شانہ بشانہ رہیں ،انھوں نے شاری بلوچ کا راستہ اپنانے کی بجائے پر امن اور سیاسی جدوجہد کو اپنے ملک کے وقار اور سماج کے لئے بہتر سمجھا ہے۔
بدقسمتی سے حکمران جماعتوں نے کبھی مقامی حکومتوں کو ترجیح نہیں دی، انھیں مالی اور انتظامی اختیارات سے ہمیشہ محروم رکھا،جس کا فائدہ اراکین پارلیمنٹ نے اٹھایا ہے۔ وہ پسند اور نا پسند کے معیا ر اور سیاسی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ترقیاتی کام کراتے ہیں، جس سے حلقہ کا بڑا طبقہ محروم رہتا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات کا عمل جمہوری اداروں کی مضبوطی کے لئے لازم ہے،بالخصوص گوادر جیسے علاقہ میں ایسی شخصیت کا مئیر بننا جو قومی فکر کے حامل ہے،بلوچستان کی سیاست میں خوبصورت اضافہ ہے،ان سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ جب وہ اپنا دفتر سنبھالیں گے تو بنیادی سہولیات کو اہل گوادر کے لئے یقینی بنائیں گے جن سے وہ طویل مدت سے محروم چلے آرہے ہیں، اور بدعنوانی کا ختم کریںگے تاکہ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد اس حلقہ کے عوام پر بحال ہو ، جماعت اسلامی جس کے وہ صوبائی سیکرٹری جنرل اور مرکزی شوریٰ کے ممبر ہیں اسکی قیادت پر بھی لازم ہے کہ انکی راہنمائی کا فریضہ انجام دے تاکہ وہ ان مسائل سے نبرد آزما ہوں جو اہل گوادر کو پیش ہیں۔ توقع ہے کہ وہ بطور مئیر قومی منصوبہ سی پیک کی ترقی کے لئے بھی دست شفقت بڑھائیں گے ،ہماری معیشت کی کامیابی کا دارومدار اس سے عبارت ہے۔