تل ابيب: اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے سربراہ یوسی کوہن نے انکشافات سے بھرپور انٹرویو میں ایران کے خلاف خفیہ آپریشنز سے پردہ اٹھایا ہے۔
اسرائیل کے سرکاری ٹیلی ویژن کو دیے گئے انٹرویو میں سابق موساد چیف نے ایران کے جوہری راز چرانے سمیت ایران کے ایٹمی پروگرام کے بانی سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل اور ایران کے نطنز جوہری مرکز پر ہونے والے حملے میں موساد کے ملوث ہونےکا اشارہ دیا ہے۔
یوسی کوہن حال ہی میں ریٹائرڈ ہوئے ہیں اور ان کی جگہ موساد کے نئے چیف نے سنبھالی ہے ، 2015 میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی کا چیف تعینات ہونے والےکوہن نے دوران انٹرویو انکشاف کیا کہ دوران ملازمت ان کے پاس 100 سے زائد ممالک کے پاسپورٹ رہے ہیں۔
خیال رہے کہ 2018 میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے پاس ایران کے ایٹمی پروگرام کی تازہ اور حساس معلومات ہیں جو کہ ان کے خفیہ اداروں نے حاصل کیے ہیں اور ان دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران نے خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کی ہے تاہم ایران کی جانب سے اس کی تردید کی گئی تھی۔
اسرائیلی اخبار کے مطابق اس حوالے سے یوسی کوہن نے بتایا کہ اس آپریشن کے لیے 2 سال تک تیاری کی گئی تھی اور اس میں موساد کے 20 ایجنٹس تھے جن میں سے کوئی بھی اسرائیلی شہری نہیں تھا۔ آپریشن کی نگرانی خود موساد چیف نے کی اور ایجنٹس نے ایران کے ایک خفیہ وئیر ہاؤس میں داخل ہو کر وہاں موجود 30 سیف توڑ کر دستاویزات حاصل کر لیں اور اسے ایران سے باہر بھیجنے میں بھی کامیاب رہے جبکہ آپریشن میں تمام ایجنٹس محفوظ رہے اور بعض کو ایران سے نکالا بھی گیا۔
انٹرویو کے دوران یوسی کوہن نے رواں سال اپریل میں ایران کے نطنز جوہری مرکز پر ہونے والے حملے کے سوال پر بتایا کہ وہ اس جگہ کو اتنی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کسی کو اس جگہ لے کر جا سکتے ہیں جہاں سینٹری فیوجز موجود ہیں۔
سابق موساد چیف نے گذشتہ سال نومبر میں ہونے والے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بانی سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل پر بھی بات کی جس کا ذمہ دار ایران نے اسرائیل کو قرار دیا تھا۔
یوسی کوہن نے محسن فخری زادہ کے قتل میں موساد کے ملوث ہونے کی نہ تو تردید کی اور نہ ہی اس کا اقرار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ کافی عرصے سے ہماری نظر میں تھے اور ان کی سائنسی معلومات پر موساد کو تشویش تھی۔
انٹرویو لینے والی صحافی کے مطابق اس موقع پر یوسی کوہن نے واضح طور پر متنبہ کیا کہ اگر کوئی شخص اسرائیلی شہریوں کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے تو اسے ضرور روکا جائے گا تاہم اگر کوئی اپنا کیریئر تبدیل کرنا چاہتا ہے اور ہمارے لیے خطرے کا باعث نہیں بنے گا تو ہم اسے چھوڑ سکتے ہیں۔