مالی سال 22-2021 کا 8 ہزار 487 ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش، اپوزیشن کا ہنگامہ

مالی سال 22-2021 کا 8 ہزار 487 ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش، اپوزیشن کا ہنگامہ

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے مالی سال 22-2021 کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ بجٹ کا کل حجم 8 ہزار 487 ارب روپے ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجٹ تقریر کا آغاز کیا ہی تھا کہ اپوزیشن اراکین نے شور شرابہ شروع کردیا اور شدید نعرے بازی کی۔ انہوں نے مک گیا تیرا شو نیازی، گو نیازی کے نعرے لگائے، اور نشستوں پر کھڑے ہوکر احتجاج کرنے اور ڈیسک بجانے لگے جس کی وجہ سے اتنا شور ہوا کہ ایوان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔

صورتحال اس قدر خراب ہوئی کہ ایک موقع پر تو اسپیکر کو خواتین اپوزیشن ارکان کو حکومتی بینچز سے ہٹانے کے لیے سارجنٹ ایٹ آرمز کو طلب کرنا پڑا۔

وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے معیشت کے استحکام میں وقت لگا، سابق حکومت نے قرض لیکر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے، لیکن موجودہ حکومت ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں کامیاب ہوئی ہے، صنعت کی ترقی غیرمعمولی رہی ہے۔

وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کے آغاز میں پی ٹی آئی حکومت کو ورثے میں ملنے والی خراب معاشی صورتحال اور قرضوں و خساروں کا ذکر کیا تاہم انہوں نے کہا کہ قبرستان میں کھڑے ہوکر مردے اکھاڑنے سے بہتر ہے کہ باہر نکل کر قوم کو روشنی کی طرف لے جایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کے استحکام کا مرحلہ کافی حد تک مکمل ہوگیا ہے اور اب ترقی و استحکام ہدف ہوگا۔

ریونیو 

شوکت ترین نے کہا کہ آئندہ مالی سال کیلئے مجموعی ریونیو کا تخمینہ 7909 ارب روپے ہے اور ریونیو میں اضافہ کا ہدف 24 فیصد ہے، ایف بی آر کا ہدف 24 فیصد گروتھ کے ساتھ 5829 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے اور نان ٹیکس ریونیو گروتھ کا ہدف 22 فیصد رکھا گیا ہے، وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ 2704 ارب روپے سے بڑھا کر 3411 ارب روپے کردیا ہے، صوبوں کو 707 ارب روپے اضافی دیے جائیں گے۔

موبائل فون اور ٹائرز مہنگے

وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ بجٹ میں موبائل فون اور ٹائروں کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھائی جا رہی ہے، برآمدات کے فروغ کیلئے خصوصی ایکسپورٹ اسکیم متعارف کروائی جارہی ہے جس کے تحت ایس ایم ایز و دیگر شعبے ڈیوٹی فری درآمدات کرسکیں گے جس کی معیاد بھی دو سال سے بڑھا کر 5 سال کی جارہی ہے۔

الیکٹرک اور 850 سی سی گاڑیاں سستی

الیکٹرک گاڑیوں کی مقامی مینو فیکچرنگ کے لیے کٹس کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ ان گاڑیوں کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح میں 17 فیصد سے 1 فیصد تک کمی کی گئی ہے۔ مقامی طور پر بنائی گئی 850 سی سی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا گیا۔ ان پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے کم کر کے ساڑھے 12 فیصد کر دی گئی۔

آئی ٹی پر ٹیکس چھوٹ

آئی ٹی سروس کی برآمدات کو زیرو ریٹنگ کی سہولت فراہم کردی گئی ہے۔ پھلوں کے رس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کر دی گئی۔ قرآن پاک کی اشاعت کے لیے معیاری کاغذ کی درآمد پر بھی چھوٹ دے دی گئی۔ خود تلف ہونے والی سرنجز اور آکسیجن سلنڈرز پر ٹیکس چھوٹ دے دی گئی۔

بلاسود قرضے

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہر شہری گھرانے کو کاروبار کے لیے 5 لاکھ روپے تک بلاسود قرضے دیں گے۔ ہر کاشت کار گھرانے کو ہر فصل کی کاشت کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے بلاسود قرضے دیں گے۔ اسی طرح ٹریکٹرز اور مشینی امداد کے لیے 2 لاکھ روپے تک بلاسود قرضے دیں گے۔ اسی طرح کم لاگت گھروں کی تعمیر کے لیے 20 لاکھ روپے تک سستے قرضے، ہر گھرانے کو صحت کارڈ اور ایک فرد کو مفت تکنیکی تربیت دی جائے گی۔

دفاعی بجٹ

نئے سال کا دفاعی بجٹ مجموعی قومی بجٹ کا 16 فیصد اور جی ڈی پی کا 2.8 فیصد ہے، جس میں سے پاک آرمی کا دِفاعی بجٹ ملکی بجٹ کا 7 فیصد ہے۔

کورونا

وزیر خزانہ کے مطابق کووڈ ایمر جنسی فنڈ کیلئے 100 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ کورونا ویکسین کی درآمد پر 1.1 ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے اور جون 2022 تک دس کروڑ لوگوں کو ویکسین لگائی جائے گی۔

آبی ذخائر

وزیر خزانہ نے کہا کہ آبی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے 91 ارب روپے، داسو ہائیڈور پاور پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کے لیے 57 ارب روپے مختص، دیامبر بھاشا ڈیم کے لیے 23ارب، مہمند ڈیم کے لیے 6ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں، جب کہ نیل جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کے لیے 15ارب روپے کی تجویز ہے۔

پانی بحران پر قابو پانے کیلئے اربوں روپے مختص

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجٹ تقریر کے دوران بتایا کہ پاکستان تیزی سے پانی کی کمی کا شکار ہو رہا ہے، وزیراعظم پانی کی ذخیرہ گاہوں، چھوٹے، درمیانے اور بڑے ڈیمز کی تعمیر کے خواہشمند ہیں تاکہ مستقبل میں ہماری پانی کی ضرورت پوری کی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ تین بڑے ڈیم داسو، دیا مر بھاشا اور مہمند کی تعمیر بجٹ میں ہماری ترجیح ہو گی، ہمارا مقصد ان منصوبوں کی وقت پر تکمیل ہے۔ بجٹ میں آبی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کل 91 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ پانی سے بجلی بنانے کے منصوبے اس کے علاوہ ہیں۔ اس شعبے کے بڑے پروجیکٹ درجِ ذیل ہیں۔

داسو ہائیڈرو پراجیکٹ، پہلے مرحلے کے لیے 57 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

دیا مر بھاشا ڈیم کے لیے 23 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔

مہمند ڈیم کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔

نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کےلیے 14 ارب روپے کی تجویز ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ آبی تحفظ میں اضافے کے لیے بہت سے دیگر منصوبے بھی زیر عمل ہیں جن میں دروٹ ڈیم، خٹ بانڈا ڈیم، ماخ بانڈا ڈیم، پیزر ڈیم، سری کالاش، وینڈر ڈیم شامل ہیں۔

تنخواہیں اور پنشن

وزیر خزانہ نے کہا کہ یکم جولائی سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا جارہا ہے، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں دس فیصد اضافہ کیا جائے گا، اردلی الاؤنس کو 14000 روپے ماہانہ سے بڑھا کر ساڑھے سترہ ہزار روپے ماہانہ کیا جائے گا، اسی طرح گریڈ ایک سے پانچ کے ملازمین کے انٹیگریٹڈ الاؤنس کو ساڑھے چار سو روپے سے بڑھا کر 900 روپے کیا جارہا ہے، کم آمدنی والے افراد پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کیلئے کم سے کم اجرت بڑھا کر 20 ہزار روپے ماہانہ کی جارہی ہے۔

شوکت ترین نے کہا کہ بجٹ میں اخراجات جاریہ 14 فیصد اضافہ کے ساتھ 6561 ارب روپے سے بڑھا کر 7523 ارب روپے کیا جارہا ہے، سبسڈیز کیلئے 682 ارب روپے رکھے جارہے ہیں، کورونا ویکسین کی درآمد پر 1.1 ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے، جون 2022 تک دس کروڑ لوگوں کو ویکسین لگائی جائے گی۔

اینٹی ریپ فنڈ، پی آئی اے، ہائر ایجوکیشن کمیشن

وزیر خزانہ نے کہا کہ انسداد جنسی زیادتی فنڈ قائم کیا جا رہا ہے جس کے لیے 100 ملین روپے، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 66 ارب روپے اور ترقیاتی بجٹ کے لیے مزید 44 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں بعدازاں 15 ارب روپے اضافہ ہوگا۔ پی آئی اے کے لیے 20 ارب، اسٹیل ملز کے لیے 16 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ مردم شماری کے لیے 5 ارب، مقامی حکومتوں کے الیکشن کے لیے 5 ارب مختص کیے گئے ہیں۔

چھوٹے کاروبار کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ

وزیر خزانہ نے کہا کہ 10 ملین روپے تک سالانہ ٹرن اوور والی گھریلو صنعت کو سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن سے استثنیٰ دے دیا گیا۔

بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، سندھ کیلئے گرانٹ

وزیر خزانہ کے مطابق جنوبی بلوچستان ترقیاتی پلان کیلئے 20 ارب روپے، گلگت بلتستان سوشیو اکنامک ڈویلپمنٹ پلان کیلئے 40 ارب روپے، گلگت بلتستان کو گرانٹ ان ایڈ کی مد میں 47 ارب روپے، آزاد کشمیر کو گرانٹ ان ایڈ کی مد میں 60 ارب روپے، سندھ کو گرانٹ ان ایڈ کی مد 19 ارب روپے ، بلوچستان کو این ایف سی کے حصے کے علاوہ گرانٹ ان ایڈ کی مد میں 10 ارب روپے، نئی مردم شماری کیلئے 5 ارب روپے، لوکل الیکشن کے انعقاد کیلئے 5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری

سی پیک کے 13 ارب ڈالر کے 17 بڑے منصوبے مکمل کر لیے گئے اور 21 ارب ڈالر مالیت کے مزید 21 منصوبے جاری ہیں، اسٹریٹجک نوعیت کے 28ارب ڈالر کے 26 منصوبے زیر غور ہیں، بجٹ میں کراچی لاہور موٹروے کی تکمیل ترجیحات میں شامل ہے۔

توانائی

وزیر خزانہ نے بتایا کہ بجلی کی ترسیل کے منصوبوں کے لیے 118 ارب روپے رکھے گئے ہیں، اسلام آباد اور لاہور میں بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کے لیے ساڑھے سات ارب روپے اور داسو سے 2160 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے ساڑھے آٹھ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

پانی بحران پر قابو پانے کیلئے اربوں روپے مختص

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجٹ تقریر کے دوران بتایا کہ پاکستان تیزی سے پانی کی کمی کا شکار ہو رہا ہے، وزیراعظم پانی کی ذخیرہ گاہوں، چھوٹے، درمیانے اور بڑے ڈیمز کی تعمیر کے خواہشمند ہیں تاکہ مستقبل میں ہماری پانی کی ضرورت پوری کی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ تین بڑے ڈیم داسو، دیا مر بھاشا اور مہمند کی تعمیر بجٹ میں ہماری ترجیح ہو گی، ہمارا مقصد ان منصوبوں کی وقت پر تکمیل ہے۔ بجٹ میں آبی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کل 91 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ پانی سے بجلی بنانے کے منصوبے اس کے علاوہ ہیں۔ اس شعبے کے بڑے پروجیکٹ درجِ ذیل ہیں۔

داسو ہائیڈرو پراجیکٹ، پہلے مرحلے کے لیے 57 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

دیا مر بھاشا ڈیم کے لیے 23 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔

مہمند ڈیم کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔

نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کےلیے 14 ارب روپے کی تجویز ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ آبی تحفظ میں اضافے کے لیے بہت سے دیگر منصوبے بھی زیر عمل ہیں جن میں دروٹ ڈیم، خٹ بانڈا ڈیم، ماخ بانڈا ڈیم، پیزر ڈیم، سری کالاش، وینڈر ڈیم شامل ہیں۔

ترقیاتی بجٹ

آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 900 ارب روپے مقرر کیا گیا جس میں سے وفاقی وزارتوں کو 672 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ملے گا، ایوی ایشن ڈویژن کیلئے 4 ارب 29 کروڑ، کابینہ ڈویژن کو56ارب2کروڑ روپے ، موسمیاتی تبدیلی 14ارب روپے، کامرس ڈویژن 30 کروڑ روپے، وزارت تعلیم و تربیت کیلئے9 ارب روپے، وزارت خزانہ 94ارب روپے ، ہائر ایجوکیشن کمیشن 37 ارب روپے ، ہاؤسنگ و تعمیرات کیلئے 14 ارب94 کروڑ، وزارت انسانی حقوق 22 کروڑ، وزارت صنعت و پیداوار 3 ارب، وزارت اطلاعات 1 ارب 84 کروڑ روپے، وزارت آئی ٹی 8 ارب روپے، بین الصوبائی رابطہ کیلئے 2 ارب 56 کروڑ، وزارت داخلہ 22 ارب روپے، امورکشمیر اورگلگت بلتستان کیلئے61ارب، وزارت قانون و انصاف 6 ارب، امور جہازرانی و میری ٹائم کیلئے 4 ارب 95 کروڑ، وزارت انسداد منشیات کیلئے 33 کروڑ، وزارت غذائی تحفظ کے لیے 12 ارب ، نیشنل ہیلتھ سروسز کیلئے 22ارب82 کروڑ، قومی ورثہ و ثقافت کیلئے 4 کروڑ 59 لاکھ، پٹرولیم ڈویژن 3 ارب 7 کروڑ روپے، وزارت منصوبہ بندی 99 ارب 25 کروڑ، سماجی تحفظ 11 کروڑ 89 لاکھ، ریلوے ڈویژن کیلئے 30 ارب روپے، سائنس و ٹیکنالوجی 8 ارب 11 کروڑ، آبی وسائل 110 ارب روپے، این ایچ اے 113 ارب 95 کروڑ روپے، پیپکو کے لیے 53 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مقرر کیا گیا ہے۔ دیگر ضروریات و ایمرجنسی کیلئے 60 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

اس سے قبل وفاقی کابینہ نے نئے مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں دس فیصد اضافے کی منظوری دے دی۔

وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا، جس میں وفاقی کابینہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور  پینشن میں 10 فیصد اضافے اور فنانس بل 2021 کی منظوری دے دی ہے، جب ک  کابینہ نے انٹرنیٹ پر ٹیکس کی تجویز مسترد کردی، اور موبائل فون پر ٹیکس بھی محدود کر دیا گیا۔