الہ دین کے من میں سمائی کہ آج ذرا دنیا کے عجیب وغریب مقامات کی سیر کی جائے۔ ویسے بھی عرصہ ہوا تھا کہ وہ اپنے اے سی والے کمرے سے باہر نہیں نکلا تھاہ "افسر شاہی" کی طرح اب تو قالین پر بیٹھ کر اڑتا بھی نہ تھا کہ باہر گرمی تھی بھئی، حالانکہ قالین تو پچاس روپے فی کلومیٹر سے بھی سستا تھا۔ خیر بس جناب سرکار کا موڈ بن گیا جنی کو ساتھ لیا قالین پر سوار کیا اور حکم دیا مجھے دنیا کے" عجیب " مقامات دکھاؤ۔
قالین نے اڑان بھری اور ایک ایسی جگہ سے گزرا جہاں پارہ 42 ڈگری تھا۔ ہوا کی شدت 48,50 سے کم نہ تھی۔ گرمی سے قالین میں آگ لگنے کا خدشہ ہوا۔ فوراً نیچے ہو کر اڑنے کا حکم دیا۔ نیچے کیا دیکھتا ہے کہ دوپہر ایک بجے ننھے ننھے بچے، موٹے موٹے یونیفارم بھاری بھاری بستے بسوں میں لٹکنے کو بیقرار گھر جانے کو بیتاب دھوپ بھری سڑکوں کے کنارے کھڑے ہیں۔ اس نے سنا کہ ان کے سکولوں میں آدھا آدھا دن بجلی نہیں تھی۔ اکثر میں پانی بھی نہیں تھا جہاں تھا وہاں ٹھنڈا نہیں تھا کئی بچے بے ہوش ہوئے اور بہت سوں کی نکسیر پھوٹی۔ پر ہائے"شراب علم کی لذت".
الہ دین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ فوراً جنی کو حکم دیا اور مناظر دکھاؤ۔ جنی نے آئینہ میں دکھایا کہ جناب یہ تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔دیہاتی اور صحرائی علاقوں کا نظارہ کریں۔۔میلوں پیدل چل کر دھوپ اور نیم صحرا میں آتے جاتے بچے دکھائے۔
الہ دین حیران ہوا کہ اس سے پہلے وہ اس مقام کے بارے میں کیوں نہیں جانتا تھا۔ جنی نے عرض کی جناب اس مقام پر "تبدیلی"آ گئی ہے۔ اب ان کی ہر "مراد" "راس"آ رہی ہے۔ ورنہ یہ نااہل پہلے اس موسم میں آرام سے گھر بیٹھتے تھے۔
یہ تو انہیں اب پتا چلا کہ پارہ 42 ہو تو "علم ابل کر باہر آ جاتا ہے" زیادہ ابل جائے تو 1122 ہے نا ورنہ ایدھی صاحب مرحوم کا فیض تو جاری ہے ہی۔
الہ دین اس "دیوانگی شوق" سے متاثر ہوا اور پوچھا اتنی عظیم تبدیلی ہے، یقینا یہ ایک "علم دوست " اقدام ہے۔ ایسی سوچ رکھنے والے اساتذہ کا تو بہت احترام کرتے ہوں گے۔ جنی نے کہا جناب ایسا ویسا یہ دیکھیں کچھ دن پہلے بھی اساتذہ ان کی افسر شاہی کی نظروں کے" سامنے رہنے" کے لیے سیکرٹریٹ کے باہر ہی بیٹھے تھے (کیونکہ سیکرٹریٹ سے باہر تو وہ آتے نہیں، گرمی بہت ہے بھئی) تاکہ ان پر" نظر " پڑ جائے۔ ایسا تو اکثر ہوتا ہے پر یہاں کے اساتذہ بہت"عاجز " ہیں۔ اندر دفتر میں کرسیوں پر بیٹھ کر بات نہیں کرتے (کوئی کرنے ہی نہیں دیتا) باہر سڑک پر بیٹھتے ہیں کہیں کہیں ان اساتذہ کا خیال کرتے ہوئے حکومت انہیں" واٹر کینن" سے "دھوتی" بھی ہے۔ اس سے "طبیعت بحال" ہو جاتی ہے اور "ہوش ٹھکانے"۔
الہ دین نے سڑک پر پڑے ایک شخص کو دیکھا جو دل کا مریض تھا۔ گرمی سے طبیعیت بگڑ گئی تھی۔
الہ دین نے انہیں سنبھالا پانی پلایا بات چل نکلی تو پوچھا
" صاحب آپ کی کیا رائے ہے؟" وہ بولے
روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہوتا ہے
واہ واہ صاحب ! آپ تو شاعر ہیں۔۔
وہ بولے ارے جناب اردو کا ادنیٰ استاد ہوں۔۔۔۔شعر تو غالب صاحب سے مستعار ہے۔
ارے اردو تو یہاں کی قومی زبان ہے۔۔۔اس کا استاد ادنیٰ کیسے؟
بولے "قومی زبان ہے اسی لیے تو ادنیٰ ہے۔ اردو لازمی ہے اور جو "لازمی" ہو اس کا امتحان نہیں لیتے"
الہ دین کچھ نا سمجھا
بولا یہ کیا؟
وہ پہلے ہی بے حال تھے چڑ کر بولے "اردو کا امتحان نہیں لے رہے بھئی فقط اختیاری مضامین کا ہو گا۔"
"یہ کیا سائنس ہے؟ وہ نا سمجھا
"یہ" بڑی سائنس" ہے بیٹا"۔۔۔۔وہ چل دیے
ہہہممم غیر معمولی لوگ ہیں یہ تو استاد پیپر نہ لینے پر افسردہ ہیں۔ سائنس اہم ہو گی یہاں تبھی تو اس کے پیپرز لازمی لے رہے ہیں۔
جنی مجھے دکھاؤ کہ ان میں سے کون کون سے بچے آنے والے وقت کے ڈاکٹر عبدالسلام ہوں گے؟ جناب! ان میں سے کچھ آج بے ہوش پڑے ہیں اور کچھ کے گھر کے حالات کورونا سے متاثرہ ہیں لہذا فی الحال وہ ریڈار پر نہیں آ پائے۔
"ہاں ہاں کورونا" اچھا یاد دلایا الہ دین بولا
اتنی عظیم قوم ہے، انہوں نے تو وبا میں بھی سکول کھلے رکھے ہوں گے؟
"نہیں جناب یہ ادارے تو عرصے بعد کھلے ہیں"
"کیا؟ کیوں بھئی کیا تعلیمی اداروں میں ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا؟
"نہیں جناب یہ ادارے اس لیے بند تھے کہ "صرف وہیں ایس او پیز کا خیال رکھا جاتا تھا".
الہ دین کو چکر آ گیا۔
"اگر اتنے عرصہ سے بند تھے تو بچوں کا تعلیمی سال تو گیا"
جنی بولا "نہیں جناب، "کنفرم جنتی "نے امتحانات کے بغیر ہی انہیں پاس اور پرموٹ کر دیا تھا"
فرط جذبات سے الہ دین کی آنکھوں میں آنسو آ گئے
"احساس" اسی کا نام ہے، وہ بولا
نہیں جناب "احساس پروگرام" الگ ہے۔
ارے آپ کی نکسیر پھوٹ پڑی جلدی سے گھر چلیں آپ کوئی طالب علم ہیں جو اتنی گرمی میں خوار ہو رہے ہیں۔
کسی ہسپتال لے چلو مجھے الہ دین بولا
جناب وہاں بجلی نہیں ہے۔
ڈاکٹرز نے کہا ہے بجلی کا مسئلہ حل کرو ورنہ کل او پی ڈی بند۔
یہ سن کر الہ دین بےہوش ہو گیا
تحریر: خدیجہ سعید