اسلام آباد: آئندہ مالی سال 2020-2021ء کا بجٹ جمعہ کو پیش کیا جائے گا جس کا حجم 7600 ارب روپے رکھا جا رہا ہے اور ٹیکس آمدن کا ہدف 4950 ارب روپے رکھا جا سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خسارہ 3427 ارب روپے سے زائد رہنے کا امکان ہے بجکہ سود اور قرضوں کی ادائیگی پر 3235 ارب روپے خرچ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ دفاع کے لیے 1402 ارب روپے خرچ ہو سکتے ہیں۔
وفاقی بجٹ میں پنشن کے لیے 475 ارب روپے خرچ ہونے کا امکان ہے جبکہ وفاقی وزارتوں اور محکموں کے لیے 495 ارب روپے کا بجٹ رکھا جا سکتا ہے۔ وفاق سبسڈی پر 260 ارب روپے خرچ کر سکتا ہے۔ وفاقی حکومت گرانٹس کی مد میں 820 ارب روپے جاری کر سکتی ہے اور وفاق کا ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے رکھا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے تمام شعبوں پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ نان فائلرز کیلئے ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنے کا امکان ہے۔ نان فائلرز کیلئے انکم ٹیکس اور ایف ای ڈی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ نان فائلرز کیلئے جی ایس ٹی کی شرح بھی 17 فیصد سے بڑھانے کی تجویز ہے۔
ذرائع کے مطابق تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس میں کسی رعایت کا امکان نہیں۔ غیر رجسٹرڈ افراد کو ان پٹ ٹیکس کریڈٹ کی سہولت بھی ختم ہو سکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق نئے مالی سال کے بجٹ میں غیرملکی کرنسی کے لین دین پر ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیے جانے کا امکان ہے۔ غیر ملکی کرنسی کے لین دین پر 0.6فیصد سے ایک فیصد تک ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔
ای سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد ہو سکتی ہے اور ایڈوانس انکم ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کی تجویز ہے، ایڈوانٹس انکم ٹیکس ڈیلرز، ڈسٹری بیوٹرز، رٹیلرز تک بڑھ سکتا ہے۔
بجلی کے بلوں میں وِد ہولڈنگ ٹیکس کی سلیب بڑھا کر تین کرنے کی تجویز ہے اور بجلی کے 33 ہزار تک کے بل پر ود ہولڈنگ ٹیکس 5 فیصد سے 7.5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ 33 سے 66 ہزار تک کے بل پر ود ہولڈنگ ٹیکس 10 فیصد اور 66 ہزار سے زائد کے بل پر ود ہولڈنگ ٹیکس 15 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔