اسلام آباد: بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کے خلاف دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت کل صبح 9:30 تک ملتوی کردی گئی.
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کے خلاف دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکا نےسماعت کی۔ خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چوہدری ایڈوکیٹ کی جانب سے دلائل پر پی ٹی آئی وکلا کی جانب سے اعتراض بھی کیا گیا ہے۔
خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چوہدری ایڈوکیٹ نے اپنے دلائل کا آغاز کردیا اور کہا کہ دو دن جو دلائل ہوئے وہ بحث بالجبر کے مترادف تھی ، ان کی طرف سے جنرل التوا کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا گیا، اس میں بذریعہ کال ڈائریکشن دی گئی۔
ہائیکورٹ ہمارے کیسز میں کیوں نہیں بتاتی کہ ہمارا کیا قصور ہے، ہمارے پاس سوشل میڈیا پر کوئی گالم گلوچ کی مہم چلانے والا نہیں ہے۔
زاہد آصف چوہدری ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ میں نے ماہ رمضان میں بھی کبھی عدالتوں میں پیش نہیں ہوا، محرم الحرام سوگ کا مہینہ ہے ، میں نے اہل بیت کی محبت میں اس عدالت سے التوا مانگی۔جب میری التوا کی درخواست عدالت نے منظور کرلی تو اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیلنج کے بغیر کیسے ڈائریکشن دے دی ،میری ایک کیس میں التوا کی درخواست نہیں تھی سب کیسز میں درخواست منظور ہوئی تھی۔
خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چوہدری ایڈوکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ میرے سے سوال کیا گیا کہ جج افضل مجوکا صاحب کال پر ہدایات لی ؟ عام لوگوں کی ضمانتیں ہونے کے بعد 5،5 دن مچلکے جمع نہیں ہوسکتے۔ اگر آپ میرے حق میں فیصلہ دیں گے تو خوشی کا اظہار کروں اگر خلاف فیصلہ دیں گے تو میں آپ کے خلاف مہم نہیں چلاؤں گا،ہمارے وکلاء نے صرف اونچا بولنے پر دہشتگردی کے پرچے بھگتے ہیں۔
زاہد آصف چوہدری نے عدالت میں کہا کہ حامد میر ،غریدہ فاروقی ، طلعت حسین اگر کوئی پروگرام کرتے اور اس میں توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا جاتا ہے ،کل ایک پروگرام میں طلعت حسین نے ڈرتے ہوئے روؤف حسن کا زکر کیا کہ میں وہ ویڈیوز چلا بھی نہیں سکتا کہ میرے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا جائے گا۔جج ہمایوں دلاور صاحب کی کھلی عدالت میں طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا، ججز کی قلم ان کے خلاف بھی چلے گی جنہوں نے عدالتوں میں ججز کی توہین کی۔ ایک جج عدالت میں ملزم کو کہتا ہے کہ گڈ ٹو سی یو ۔
پی ٹی آئی وکلا کی جانب سے زاہد آصف چوہدری کے دلائل پر اعتراض کیا تو زاہد آصف چوہدری ایڈوکیٹ نے کہا کہ جب آپ کے سامنے دھمکی آمیز دلائل دیے گئے تو ہم نے اعتراض نہیں کیا، وکیل کا کام نہیں ہے کہ گالم گلوج کرے یا الزام تراشیاں کرے ۔
وکیل خاور مانیکا نے عدالت میں استدعا کی کہ میں اس عدالت سے توقع کرتا ہوں کہ بغیر کسی پریشر کے فیصلہ کرے گی،،عثمان ریاض گل ایڈوکیٹ نے موقف میں کہا کہ ٹرائل کورٹ کے 16 جنوری اور 3 فروری کے آرڈرز بتائیں گے کہ ٹرائل کورٹ کے جج مینیجڈ تھے،2 فروری کو بریت کی درخواست دائر کی گئی تھی جس ریکارڈ پر موجود ہے ،اس کے بعد جرح ہوئی اور 342 کا بیان رات 9:45 پر ہوا۔
معاون وکیل زاہد آصف نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ میڈیکل بورڈ بنایا جائے، ہوسکتا ہے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ ان کے حق میں آجائے ، مجھے امید ہے کہ دوسری پارٹی کو میڈیکل بورڈ کی تشکیل پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ، 39 دن کے حوالے سے ججمنٹ موجود ہے اس کے بعد 90 اور 100 دن کی ججمنٹ بھی موجود ہے ، اگر بورڈ بننے کے بعد خاتون پیش نہیں ہوتی تو تاثر سامنے آ جائے گا۔
بعد ازاں خاور مانیکا کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرے جس کے بعد خاور مانیکا کی درخواستوں پر بشریٰ بی بی کے وکیل عثمان ریاض گل نے دلائل کا آغاز کیا ، بشریٰ بی بی کے وکیل نے کہا کہ ان درخواستوں پر فیصلہ کرتے ہوئے شکایت کنندہ اور ان کے وکلا کا کنڈکٹ بھی دیکھنا ہو گا، کیس کو التواء میں رکھنے کے لیے متعد کوششیں کی گئیں ، اب یہ عدالت کو کام سے روکنے کے لیے تیسری کوشش کی جا رہی ہے۔
عثمان ریاض گل نے درخواستوں کو جرمانہ کے ساتھ مسترد کرنے کی استدعا کر دی،جس پر زاہد آصف ایڈووکیٹ نے کہاکہ میری ایک بھی التواء کی درخواست دکھا دیں میں ان کی جانب سے دی گئی دھمکیاں بتاؤں گا ، اپیل کنندگان اپنے گواہ لانا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی بھی اعتراض نہیں ، عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کی ہدایات ہیں کہ تیس دن کے اندر فیصلہ کرنا ہے، اس میں ورکنگ ڈیز کا ذکر نہیں۔
اس پر جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ میں نے حال ہی میں 4 دن کے اندر ٹرائل مکمل کیا، وکیل نے مزید کہا کہ ملزمان میں دو دو بار چالان کی کاپیاں تقسیم کی گئیں ، بشریٰ بی بی کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے بار بار طلب کیا گیا وہ پیش نہیں ہوئیں ، میں نے التوا کی درخواست دائر کی، وہ مسترد کردی گئی تو میں آج عدالت کے سامنے پیش ہوں ، دائرہ اختیار کا اعتراض تھا تو اس کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ یا سیشن کورٹ میں اس کو چیلنج نہیں کیا گیا۔
وکیل نے کہا کہ بار بار اس بات پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ فرد جرم بشریٰ بی بی کی موجودگی میں عائد نہیں کی گئی ، اس کو اگر دیکھیں تو کون بھاگ رہا تھا؟ تاخیری حربے کون استعمال کررہا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ جج صاحب نے کہا کہ بشریٰ بی بی اس وقت کورٹ میں موجود تھیں تو ان کی جانب سے کہا گیا کہ نہیں آئیں ، اس کے بعد عدالت نے جیل حکام سے ریکارڈ طلب کرلیا کہ وہ آئیں تھی یا نہیں، مزید کہا کہ کل سے میرے میمز بھی بنائے جا رہے ہیں۔
وکیل عثمان گل نے کہا کہ آپ کی میمز اس وجہ سے بنائی جا رہی ہیں کہ آپ پریس کانفرنس کے دوران لوڈو کھیل رہے تھے، ٹرائل کورٹ کے 16 جنوری اور 3 فروری کے آرڈرز بتائیں گے کہ ٹرائل کورٹ کے جج مینیجڈ تھے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت صبح 9:30 تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ اسلام اباد ہائیکورٹ نے کل تک اس کیس سے متعلق فیصلہ سنانے کی ڈائریکشن دے رکھی ہے۔