تحریکِ انصاف کے رَہنماؤں کی جہاں اپوزیشن کے ساتھ ”مُنہ ماری“ چلتی رہتی ہے وہیں وزیرِاعظم بھی اپنے بیانات میں اکثر ”شُرلیاں“ چھوڑتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں ”خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے“، شاید اِسی لیے گھر میں با پردہ خاتونِ اوّل کو دیکھ کر اُنہوں نے بھی پردے کی افادیت پر ایسا لیکچر دیا کہ اب سارے مرد اپنے آپ کو ”دودھ کے دُھلے“ اور معصوم عن الخطا سمجھنے لگے ہیں۔ اُدھر ہمارے میاں ہیں جنہیں ہمارے خلاف محاذ آرائی کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیے، وہ بھی جہاں کہیں خواتین کی بات ہوتی ہے فوراََ ”مولوی عمران“ کے فرمودات دہرانے لگتے ہیں۔ اُن کے لمبے چوڑے لیکچر سُن کر ہم نے کئی بار ”خودکُشی“ کی افادیت پر غور کیا۔ ہم اکثر اُنہیں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ یوں تو وہ تحریکِ انصاف کے خلاف ہر قسم کا سامانِ حرب اکٹھا کرکے مصروفِ پیکار رہتے ہیں لیکن جب خواتین کی بات ہوتی ہے تو وہ سب کچھ بھول بھُلا کر ”مولوی عمران“ کی تعریف میں رطب اللساں ہو جاتے ہیں، آخر اِس کی وجہ کیا ہے؟۔ ایسے میں اُنہیں فوراََ حضرت علیؓ کا قول یاد آ جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا ”یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے“۔ اگر وزیرِاعظم نے ایک اچھی بات کہہ ہی دی تو اُس کی تعریف کیوں نہ کی جائے۔ ہم نے کہا کہ اگر وزیرِاعظم نے ”حسبِ عادت“ اِس معاملے پر بھی یوٹرن لے لیا تو پھر؟۔ لاجواب ہونے پر اُن کی ضد اور انانیت آڑے آگئی کیونکہ اِس معاملے میں وہ وزیرِاعظم سے بھی دوہاتھ آگے ہی ہیں۔
میاں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا کہ عید قریب آرہی ہے۔ اِس لیے میرا خیال ہے کہ اِس عید پر ”وچھے“ کی قربانی دیں۔ ہم نے کہا کہ بکرا ٹھیک رہے گا۔ اُنہوں نے تُرت جواب دیا ”ہرگز نہیں“۔ ہم نے اُنہیں سمجھانے کی سعیئ بیکار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی بیٹی کے پاس امریکہ بھی جانا ہے اِس لیے عید پر بکرا ہی بہتر ہے۔ چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے وہ بولے ”واہ بھئی واہ! امریکہ کی سیر پر لاکھوں لٹانے میں کوئی حرج نہیں لیکن اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے چیں بچیں“۔ ہم نے صبر کے سارے حربے استعمال کرتے ہوئے کہا ”ذرا سوچیں تو۔۔۔۔“۔ اُنہوں نے میری بات کاٹتے ہوئے پھر کہا ”ہرگز نہیں، وَچھا ہی قربان ہوگا“۔ ایک تو طویل ترین لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں ہمارا پارا پہلے ہی رفعتوں کو چھو رہا تھا، دوسرے میاں کی ”Absolutely Not“ کی رَٹ نے صبر کے سارے بندھن تار تار کر دیئے اور ہم نے بھی ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے مصداق کہہ دیا ”میاں بن وزیرِاعظم نہ بن“۔ پھر
اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ تب ہم سوچنے لگے کہ ”ایویں خوامخواہ“ خاندانی تشدد کے امتناع اور تحفظ کے بِل کے خلاف کالم لکھ مارا حالانکہ ہمارے میاں کو تو دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں کڑے پہنائے جانے چاہئیں۔
دراصل وزیرِاعظم اپنے تقریباََ ہر ”فی البدیہہ“ خطاب میں کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ جاتے ہیں جس پر پرنٹ، اورالیکٹرانک میڈیا میں بھونچال آجاتا ہے اور متحارب گروہ سوشل میڈیا کو میدانِ جنگ میں بدل دیتے ہیں۔ ایک گروہ وزیرِاعظم کے کہے کو صحیفہئ آسمانی ثابت کرنے پر تُل جاتا ہے اور دوسرے گروہ کو اِس بیان میں کُلبلاتے کیڑے نظر آنے لگتے ہیں، قوم جائے بھاڑ میں۔ 20 جون کو امریکی صحافی جوناتھن سوان نے وزیرِاعظم سے دورانِ انٹرویو سوال کیا کہ امریکہ پاکستان میں فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ افغانستان پر نظر رکھ سکے۔ کیا پاکستان اِس کی اجازت دے گا؟۔ وزیرِاعظم نے دوٹوک کہا ”Absolutely Not“۔ تحقیق کہ وزیرِاعظم کا یہ جواب قومی غیرتوں کا آئینہ دار اور قوم کے دِل کی آواز ہے لیکن یہ دوٹوک لہجہ سفارتی زبان ہرگز نہیں۔ خاں صاحب کو بخوبی علم ہے کہ ایک طرف ہمارا اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والا ازلی و ابدی دشمن بھارت ہمہ وقت پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا ہے تو دوسری طرف افغانستان جہاں سے امریکہ بُری ہزیمت اُٹھا کر 31 اگست تک افغانستان خالی کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ اُدھر طالبان افغانستان کے 85 فیصد علاقے پر قبضے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ امریکہ کے نکلنے کے بعد افغانستان میں خوں ریزی اظہر مِن الشمس۔ اِس خوں ریزی کے اثرات سے پاکستان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ہمارے تیسرے پڑوسی ایران کے بھی پاکستان کے ساتھ مراسم لائقِ تحسین نہیں۔ اندرونی طور پر پاکستان کی سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر نہیں۔ وجہ یہ کہ وزیرِاعظم صاحب اپوزیشن سے بات کرنا تو درکنار، ہاتھ تک ملانا بھی پسند نہیں کرتے جس کی وجہ سے پاکستان کے طول وارض میں ہمہ وقت جنگ کا سا سماں رہتا ہے۔ ایسے میں کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ وزیرِاعظم بہ اندازِ حکیمانہ جوناتھن سوان کو جواب دیتے ہوئے کہتے کہ اگر امریکہ نے مطالبہ کیا تو وہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اُٹھائیں گے پھر جو فیصلہ پارلیمنٹ کرے، وہی جواب ہوگا۔ لیکن وزیرِاعظم تو ہمیشہ اپنی انانیت کے زیرِاثر وہی کہتے ہیں جو اُن کی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ مکرر عرض ہے کہ وزیرِاعظم کی سوچ ہی دراصل پوری قوم کی آواز ہے لیکن جس ڈھنگ سے اُنہوں نے بات کی وہ طریقہ درست نہیں۔ قصور وزیرِاعظم کا بھی نہیں، وہ اپوزیشن کو اتنے تواتر سے رگیدتے رہتے ہیں کہ اب یہ اُن کی عادتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ اِسی لیے اب وہ ہر کسی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تحقیق کہ ہمارے ”جہنم سے نکلے ہوئے“ اتحادی امریکہ نے ضرورت پڑنے پر کبھی پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ ہم نے 20 سالہ افغان جنگ میں ہزاروں فوجی جوانوں کے علاوہ 70 ہزار سے زائدبے قصوربچوں، بوڑھوں، جوانوں اور خواتین کی قربانیاں دیں۔ پاکستان میں دہشت گردوں نے اپنی حیوانیت کا کھُلا ثبوت دیتے ہوئے اِن معصوموں کو خودکُش حملوں کی نذر کیا۔ ہم نے اپنی معیشت برباد کی اور اِس اندھی بے چہرہ جنگ میں 300 ارب سے زائد ڈالرز کا نقصان بھی اُٹھایا۔ سبھی جانتے ہیں کہ افغانستان کی موجودہ 20 سالہ جنگ میں پاکستان نے امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ اب جبکہ وہ افغانستان کو بے یارومددگار چھوڑ کر جا رہاہے تو 90 کی دہائی کی طرح ایک دفعہ پھر اُس کی ابن الوقتی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ افغان جنگ کے خاتمے پر اُس نے ایسے آنکھیں پھیر لی ہیں جیسے جانتا ہی نہ ہو۔ موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن کے پاس عمران خاں کے ساتھ 2 منٹ کی ٹیلی فونک گفتگو کے لیے بھی وقت نہیں۔ افغان حکومت کے ساتھ بھی جوبائیڈن کا رویہ سردمہری لیے ہوئے ہے۔ گزشتہ ہفتے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی جوبائیڈن سے ملاقات کے لیے واشنگٹن گئے تو جوبائیڈن نے اُن سے محض چند منٹ کی ملاقات کی۔ اِس ملاقات اور بعد ازاں مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر جوبائیڈن ایسے نظر آئے جیسے اُنہیں جبراََ بٹھایا گیا ہو۔ اب تو امریکی حکام ڈھکے چھپے لفظوں میں افغان حکومت کو پیغام دے رہے ہیں کہ امریکہ اسامہ بِن لادن کے خاتمے کے لیے افغانستان گیا تھا، افغانستان کی تعمیروترقی کے لیے نہیں حالانکہ نائن الیون کی جنگ میں امریکی صدور افغان حکومت کو بار بار یقین دہانیاں کرواتے رہے کہ اِس بار وہ افغان حکومت کو بے یارومددگار چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ یہی امریکی پالیسیاں ہیں جو باربار پاکستان کو بھی ڈَس چکی ہیں۔ جب سے پاکستان کا اقتصادی راہداری پر چین سے معاہدہ ہواہے بھارت اور امریکہ کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگے ہیں۔ امریکہ کو کسی بھی صورت میں پاکستان کی چین سے قُربت اور دوستی منظور نہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان چین سے دوستی چھوڑ کر ایک دفعہ پھراُس کی ابن الوقتی کا شکار ہو جائے لیکن یہ پاکستانی حکومت کو قبول ہے نہ قوم کو۔ یہ یقین کہ امریکہ کی پاک چین دوستی میں دراڑ ڈالنے کی ہر کوشش کو ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑے گا۔ ایسے میں وزیرِاعظم کا ”Absolutely Not“ کہنا ہی بنتا تھا لیکن لٹھ مار انداز میں نہیں، حکمت کے ساتھ۔