افغانستان: منزل ہے کدھر تیری

11:52 AM, 11 Jul, 2021

افغان طالبان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے انہوں نے ارض افغانستان کے پچاسی فیصد حصے کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے…… وہ قندھار جیسے اہم صوبے کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں …… وہاں کے بھی  کئی اہم مقامات کو اپنے تسلط میں لے لیا ہے…… طالبان کے مخالف یا حامی کسی باخبر ذریعے کی جانب سے اس دعوے کی تردید نہیں کی گئی ہے……  اگرچہ کابل انتظامیہ اور اس کی ابھی تک پشت پناہی کرنے والے بین الاقوامی عناصر کا کہنا ہے یہ قبضہ عارضی ثابت ہو سکتا ہے…… کیونکہ حالات غیرمستحکم ہیں …… لیکن طالبان بھی کچی گولیاں کھیلے ہوئے نہیں …… ان کی قوت مزاحمت کا ایک عالم قائل  ہو چکا ہے…… کسی مقام کو اپنی دسترس میں لے لیں تو اسے آسانی کے ساتھ ان سے چھینا نہیں جا سکتا…… تاہم ملک افغاناں کے برسر زمین حالات ابھی تک غیریقینی صورت حال کا شکار ہیں …… طالبان تو بلاشبہ سب سے بڑی لڑاکا قوت ہونے کے ناطے آپس میں متحد ہیں …… ان کے مدمقابل جو عناصر قوتیں ہیں مثلاً کابل انتظامیہ پر چھائے ہوئے پرانے قوم پرست، تاجک جو دوسری بڑی آبادی بھی ہیں اور طالبان کے ساتھ ٹکر لینا بھی جانتے ہیں …… انہیں کبھی شمالی اتحاد کا نام دیا جاتا تھا…… نائن الیون سے محض دو روز قبل یعنی 9 ستمبر 2001 کو ان کے گوریلا لیڈر اور سابق سوویت یونین کے خلاف کامیاب معرکہ آرائی کرنے والے عبداللہ بن مسعود کو اچانک قتل کر دیا گیا…… تب شمالی اتحاد کی سیاسی قیادت پروفیسر برہان الدین ربانی مرحوم کے ہاتھوں  میں تھی…… اب کابل حکومت کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ ان کے قائد سمجھے جاتے ہیں …… ان کے مقابلے میں پختون مجاہد اور حزب اسلامی کے قائد گلبدین حکمت یار تھے…… اسّی اور نوّے کی دہائیوں کے دوران سوویت قابض فوجوں کو ناک کے چنے چبوانے میں انہیں بڑی شہرت ملی…… گلبدین حکمت یار اس وقت اشرف غنی انتظامیہ کے اتحادیوں میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں …… طالبان نے 1996 میں ان کی حکومت کو ہی اکھاڑ پھینکا تھا…… یہ بھی طالبان کے ساتھ مغائرت رکھتے ہیں …… اگرچہ ان کے خلاف زبان سے کم لفظ استعمال کرتے ہیں …… اسی طرح قندھار میں سوویت قبضے کے زمانے میں شیر قندھار کا لقب پانے والے سابق گورنر اسماعیل ہیں …… ازبکوں کے قائد عبدالرشید دوستم کی اپنی جمعیت ہے اور انہیں ترکی کی پشت پناہی حاصل ہے…… علاوہ ازیں شیعہ اقلیت کے لوگ ہیں …… یہ سب لوگ اگرچہ آپس میں متحد نہیں لیکن طالبان کے ساتھ کسی قسم کا یگانگت نہیں رکھتے…… بلکہ ان سے خوفزدہ ہیں اور انہوں نے اپنی اپنی جگہ مقابلے کی بھی ٹھان رکھی ہے…… یہ سب وہ مقامی لڑاکا قوتیں ہیں جنہیں عرف عام افغانستان کے WAR LORDS کہا جاتا ہے…… انہوں نے طالبان کا مقابلہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے…… امریکہ اور کابل انتظامیہ ان کی خوب حوصلہ افزائی کر رہے ہیں …… کابل شہر کو طالبان کی یلغار روکنے کی خاطر حفاظتی قلعے میں تبدیل کر کے رکھ دیا گیا ہے…… کابل ایئرپورٹ کی حفاظت امریکہ سے مشاورت کے بعد ترک افواج کریں گی…… اس سلسلے میں صدر رجب طیب اردوان اور امریکی صدر کے درمیان باقاعدہ سمجھوتہ ہو چکا ہے…… کابل سے آمدہ اطلاعات مظہر ہیں وہاں پاکستان کو طالبان کا سب سے بڑا مددگار گردانا جاتا ہے…… لہٰذا کابل کی اشرافیہ اور دیگر طالبان مخالف افغان قوتیں ہمارے ملک کو سخت تنقید کا نشانہ بناتی رہتی ہیں …… یہ ہیں وہ تمام لڑاکا یا گوریلا افغان گروپ جو اپنے اپنے علاقے کے اندر طالبان کی یلغار کے سامنے پل بنی کھڑی نظر آتی ہیں …… اس لحاظ سے دیکھیے تو صاف معلوم ہوتا ہے طالبان نے اگر اپنی سرزمین بظاہر قبضہ حاصل بھی کر لیا تو اسے برقرار رکھنا آسان نہ ہو گا مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا…… تاہم طالبان کے اندر یہ سوچ بڑی شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے کہ انہیں زیر یا مغلوب کر کے رکھ دینا چنداں مشکل نہ ہو گا ان کے یہاں اوپر سے نیچے تک خیال راسخ ہو چکا ہے کہ انہوں نے اگر اپنی سرزمین پر امریکہ جیسی واحد سپر طاقت کے ساتھ بیس سالہ جنگ کے باوجود پاؤں نہیں جمنے دیئے تو یہ وار لارڈز گروپ کس باغ کی مولی ہیں ……
تاہم اتنی بات یقینی ہے طالبان اور افغانستان 
کی دیگر متحارب قوتوں کے درمیان جلد از جلد کوئی بڑا اور مؤثر سمجھوتہ نہ ہوا تو یہ کہنے اور لکھنے میں کوئی باک نہیں ملک افغاناں خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے…… اس کے منفی اثرات پاکستان کے سرحدی علاقوں کو بھی اپنی آگ کی لپیٹ میں لے سکتے ہیں …… اس بارے میں بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ ایسی  صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لیے پاکستان کے حکمت کاروں نے کیا سٹرٹیجی تیار کر رکھی ہے…… اگر وہ واقعی کہیں ہے تو اس کا عسکری اور سول حکومت کے چوٹی کے دوچار افراد کے علاوہ کسی کو علم نہیں …… اگرچہ ہمارے حکمت کار اس حوالے سے سرگرم بلکہ سرگرداں بہت ہیں …… آرمی چیف ہر وقت اندرون اور بیرون افغانستان مختلف افراد کے ساتھ رابطے میں ہیں …… وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے امریکی ہم منصب بلنٹن کے درمیان ابھی ابھی ٹیلیفون پر تبادلہ خیال ہوا ہے…… طالبان ہر وقت پاکستانی زعماء کے ساتھ روابط اور مشاورت کا سلسلہ قائم رکھے ہوئے ہیں …… اگرچہ آخری فیصلہ اپنی مرضی سے کرتے ہیں …… سو درپیش چیلنج سے جو مہیب درجے کا ہے نمٹنے کے لئے راولپنڈی اور اسلام آباد کے فیصلہ کن حلقوں کے مابین حتمی اور قابل عمل حکمت عملی کیا طے پائی ہے…… اس کے بارے میں صحیح اور قطعی اندازہ لگانا سخت مشکل ثابت ہو رہا ہے…… یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ طالبان نے 1996 میں بھی پورے افغانستان پر اپنی حکومت قائم کی تھی…… بظاہر امن بھی وجود میں آیا تھا…… بڑا اسلحہ بھی تمام متحارب گروہوں سے چھین لیا گیا تھا…… تب انہوں نے مہاتما بدھ کے مجسمے مسمار کر کے عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کیا…… پاکستان نے بھی اس فعل سے اعراض کا مشورہ دیا جو انہوں نے نہ مانا…… مجھے 1996 ہی میں طالبان کے قائد اوّل اور اس تحریک کے بانی ملا عمر سے ملاقات کرنے کے لئے علماء اور صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ براستہ چمن قندھار جانے کا اتفاق ہوا…… ہم قندھار میں طالبان کے مقررکردہ گورنر کے مہمان تھے…… اس وقت کی طالبان حکومت کے زیرسایہ اسامہ بن لادن جیسی طاقت پناہ لے کر وہاں جاگزیں تھی…… امریکہ ہر تیسرے روز ان کے کسی ٹھکانے کا اتا پتا لگا کر بمباری کرتا تھا…… قیام کے اگلے روز ملا عمر کے کیمپ جا کر مرحوم سے ملاقات ہوئی…… انہوں نے وفد کے ہر رکن کے ساتھ ہاتھ ملانے پر اکتفا کیا…… کسی قسم کی بات نہیں کی…… نہ چہرے پر مسکراہٹ لائے…… کیمپ سے باہر نکلے تو سڑک کے پار افغانستان کے بانی اور اس ملک کی سب سے اہم تاریخی شخصیت احمد شاہ ابدالی کا مزار تھا…… ہم صحافی بڑے شوق کے ساتھ مزار کی زیارت کے لئے نیچے لوح قبر تک جا پہنچے…… احمد شاہ ابدالی کا اٹھارہویں صدی کے وسط میں تمام افغان قبائل کو اپنی منعقدہ جرگہ میں اکٹھا کر کے جدید افغانستان کی صورت متحد کرنے کا واقعہ اور شاہ ولی اللہ کی دعوت پر شمالی ہند کی جانب بڑھتی ہوئی مسلمان دشمن مرہٹہ طاقت کو پاش پاش کر دینے کا کردار زیربحث رہا تب میرے اندر خیال پیدا ہوا کہ آج کے افغانستان کو بھی ایک احمد شاہ ابدالی کی شدید ضرورت ہے جو تمام نسلوں پر مشتمل لوگوں کے نمائندوں کو اکٹھا کر کے ان کے اندر دوبارہ ایک قوم کی جمعیت پیدا کر کے انہیں متحد کر دے……
3 فروری 1997 کو پاکستان میں عام انتخابات منعقد ہوئے…… میاں نوازشریف بھاری اکثریت کے ساتھ جیت کر دوسری مرتبہ افغانستان کے اندر اپنا اقتدار قائم کر چکے تھے…… تب سعودی عرب نے طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا…… اس کے معاً بعد متحدہ عرب امارات نے بھی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا سندیسہ جاری کر دیا…… نوازشریف صاحب کو باردگر حکومت سنبھالے ابھی دو تین ماہ کا عرصہ گزرا تھا انہوں نے بھی ان دو ممالک کی جانب سے اعلانات کے بعد افغانستان کا سب سے قریب اور مؤثر ہمسایہ ہونے کے ناطے طالبان کو تسلیم کرنے کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا…… یہ غالباً اواخر اپریل یا آغاز مئی 1997 کا ذکر ہے وزیراعظم پاکستان نے اپنی حکومت کی تین ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے لاہور اور کراچی سے کچھ چنیدہ کالم نویسوں کو وزیراعظم ہاؤس میں ناشتے کی دعوت پر بلایا…… بیضوی میز ک گرد کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تمام کالم نویسوں سے باری باری ان کی رائے طلب کی گئی…… ہر ایک نے اندرون اور بیرون ملک ان کی اس وقت تک کی کارکردگی کے بارے میں ذاتی رائے یا تجزیہ پیش کیا…… مجھ سے رائے طلب کی گئی تو واضح الفاظ میں کہا میاں صاحب آپ نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں جلدبازی سے کام لیا ہے…… یہ حکومت بظاہر مستحکم مگر اندر سے کمزور ہے…… طالبان تمام تر دعویٰ اسلام اور نفاذ شریعت کے اعلانات کے باوجود پشتون ہونے کی بنا پر کل آبادی کے 48 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں …… اگرچہ اکثریت میں ہیں لیکن شمالی اتحاد کے تاجک ان کے ہمسایہ ازبک اور شیعہ آبادی وغیرہ مل کر آبادی کا بڑا اور معتد بہ حصہ بنتے ہیں …… بھارت انہیں روزانہ کی بنیاد پر شہ دیتا ہے…… ایران کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں …… ازبکوں کی وجہ سے ترکی بھی طالبان حکومت کا حامی نہیں …… اس لحاظ سے دیکھا جائے تو طالبان حکومت طاقت کے تمام تر مظاہرے کے باوجود کسی بڑے اندرونی یا خارجی چیلنج کا مقابلہ نہیں کر پائے گی…… اس کے منفی اثرات پاکستان کو بھگتنا پڑیں گے…… میں یہاں تک کہہ گزرا جناب وزیراعظم اپنی افغان پالیسی کو اپنے ہاتھوں میں لیجئے…… اجلاس ختم ہوا …… انٹیلی جنس والے مجھ سے زیادہ سینئر کالم نویسوں کو اپنے ساتھ لے گئے…… وہاں بریفنگ دی اور باور کرانے کی کوشش کی کہ طالبان بہت مضبوط ہیں …… اس کے دو سال بعد نائن الیون ہوا…… پاکستان کے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے فوراً رخ کردار بدل دیا اور امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے…… شمالی اتحاد اور دیگر تمام آبادیوں نے امریکی حملہ آوروں کا ساتھ دینے کی ٹھان لی…… اس کے بعد کیا ہوا بچے بچے کو علم ہے…… پاکستان کو سب سے زیادہ تباہ کن اثرات کا سامنا کرنا پڑا…… تفصیلات بیان کرنے کا محل نہیں ہر ایک کو معلوم ہیں …… آج بیس سال گزر جانے کے بعد اسی طرح کے حالات کا سامنا ہے…… طالبان کے لئے لازم ہے باقاعدہ ایک قومی جرگہ منعقد کر کے دوسری نسلی آبادیوں کے ساتھ پائیدار مفاہمت پیدا کریں …… پھر انہیں ساتھ لے کر اپنے وطن کے اندر پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط حکومت اور ملک گیر اثرات رکھنے والی انتظامیہ وجود میں لائیں …… یہی آج کے افغانستان کے مسئلے کا مؤثر اور قابل عمل حل ہے……

مزیدخبریں