ایٹمی پروگرام پر منتخب وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو شہید نے امریکہ کو انکار کیا اور نواز شریف کے بل کلنٹن کو کورے جواب کے بعد بالا آخر پاکستان ایٹمی قوت بن گیا۔ بھٹو شہید کے بعد افغانستان کے مسئلے پرامریکہ کو انکار کی جرآت وزیراعظم عمران خان نے کی اور پاکستان کے مفاد پر سمجھوتہ نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور انشااللہ دنیا ایک پر امن افغانستان دیکھے گی۔
تاریخ گوا ہے کہ امریکی حماقتوں کا جواب ہمیشہ منتخب قیادت نے دیا لیکن دو آمروں ضیاالحق اور مشرف کے امریکہ اور اتحادیوں کے آپریشن افغانستان میں اندھا ساتھ دینے کی پاداش میں 75 ہزار کے قریب پاکستانی شہید ہوئے اور ہمارا اربوں ڈالر کا معاشی نقصان ہوا یہی نہیں اس جنگ میں ساتھ دے کر ہم نے اپنی ترقی کا پہیا بھی الٹا گھما دیا اور وطن عزیز کو مذہبی نفرت، دہشت گردی کی لہر، ہیروئن اور دیگر نشوں کی لت کے علاوہ کلاشنکوف کلچر اور دیگر سنگین اسلحے سے بھی متعارف کروا دیا۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم نے اپنا سب کچھ لٹا کر بھی اپنی قیمت صحیح نہیں لگائی اور آج بھی کشکول لے کر پیچھے پیچھے پھر رہے ہیں۔ البتہ اس ڈیل میں کچھ سابق جرنیل، سیاستدان اور بیورو کریٹس اپنی جھولیاں بھرتے رہے۔ وہ تب بھی سرخروع تھے اور آج بھی کامیاب ہیں۔ عوام تو محض اپنے پیاروں کی لاشیں ڈھوتے رہے یا دہشت گرد گروپوں کا نشانہ بنتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی معاملات اگر پارلیمنٹ کے ذریعے حل ہوتے تو بہتر فیصلے ہوتے۔ آخرمیں تمام آمر اپنا کیا ہو گند پارلیمنٹ سے ہی دھلواتے ہیں تو پہلے ہی احتیاط کریں۔ آج اتنی قربانیوں کے بعد امریکہ ہم پر اعتماد نہیں کرتا اور افغانستان ہمیں دشمن اور ہمارے ازلی دشمن کو اپنا دوست سمجھتا ہے۔ اس کا واضع مطلب ہے کہ آمرانہ ادوار کی خارجہ پالیسی نے ہمیں تباہی کے سوا کچھ نہ دیا۔ اب بھی ہوش کے ناخن لے لیں اور جن کا کام ہے انہی کو کرنے دیں۔
بیس سال مسلسل جدید ترین گولہ بارود پھونک کر اور دنیا کی بہترین افواج کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد ایک بار پھر بالا آخر امریکہ افغانستان سے رسوا ہو کر کسی حکمت عملی یا پلاننگ کے بغیر اپنے پیچھے تباہی و بربادی کی انگنت داستانیں چھوڑتا ہوا بھگوڑا ہو کر نکل رہا ہے۔ اس بے وقت اور کسی منصوبہ بندی یا طالبان کو شریک اقتدار کیے بغیر انخلا کے ہولناک نتائج کی افغانستان کے علاوہ پاکستان میں بھی پیشین گوئی کی جا رہی ہے۔ اللہ پاک وطن عزیز کو مزید کسی امتحان سے محفوظ رکھے۔ آمین افغانستان سے یہ فرار افغانوں سے ہمدردی نہیں بلکہ آپریشن ”فتح افغانستان“ میں امریکہ اور
اتحادیوں کی مکمل ناکامی، اپنے فوجیوں کی اندازے سے زیادہ ہلاکتیں اور افواج کی واپسی کے اپنے انتخابی نعرے کی تکمیل کے لیے جلد بازی میں کیا۔ یہ جانتے ہوے بھی کہ اس کی بیساکھیوں پر کھڑی افغان حکومت رہ جانے والے طاقتور افغان گروپوں کا مقابلہ نہ کر پائے گی وہ خطے کو طالبان اور داعش کے حوالے کر گیا۔ جب امریکہ اور اس کے اتحادی جدید ترین اسلحے اور تربیت یافتہ افواج کی مدد سے بھی افغانستان میں امن بحال نہ کر سکے تو موجودہ افغان حکومت کی کیا اوقات۔ اگر امریکہ واقعی افغانستان میں امن بحالی کے لیے سنجیدہ تھا تو اسے افغانستان کے معاملات کے بڑے سٹیک ہولڈرز یعنی طالبان کو پہلے دن سے ہی ساتھ لے کر نظام حکومت اور سیاسی دھڑے میں شامل کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کا مقصد تو روسی انخلا کے بعد افغانستان اور طالبان سے 9/11 کا بھونڈے انداز میں انتقام مسلسل لینا تھا۔ گو امریکہ اور اتحادیوں نے اسامہ بن لادن سمیت طالبان قیادت کا مکمل صفایا کر دیا لیکن اس نے نفرت کے بیج کو ختم کرنے کے لیے کچھ نہ کیا اور قیادت کے خاتمے اور ایک سلیکٹو حکومت کے قیام کے بعد امریکہ بہادر نے سمجھا کہ سب اچھا ہے۔امریکی افواج کو موجودگی میں بھی اس حکومت کی رٹ نہ تھی تو امریکہ اور اتحادیوں کے جانے کے بعد اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس حکومت کی زندگی کتنی ہو گی۔ خاص طور پر جب خود امریکی افواج کی موجودگی میں افغان حکومت کی حالت پتلی تھی تو ان کے جانے کے بعد کی صورتحال سے لگایا جا سکتا ہے اور اس حوالے سے بارڈر پار سے اچھی خبریں نہیں آ رہیں۔
خلیجی خبر رساں ادارے الجریزہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغانستان کے 85 فیصد علاقے پرکنٹرول حاصل کرلیا ہے جب کہ طالبان کے خلاف پراپیگنڈے کے نتیجے میں سرکاری حکام کے ساتھ معاہدہ ختم کردیا گیا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق مقامی افغان حکام کا کہنا ہے کہ نیٹو فوج کے انخلا کے بعد مضبوط ہونے والے طالبان نے صوبے ہرات کے اہم ضلعے پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ افغان حکام اور طالبان نے ترکمانستان کی سرحد کے ساتھ موجود علاقے ترغنڈی پر بھی قبضے کی تصدیق کی ہے۔ ایسی صورتحال میں افغان حکومت کتنا وقت لیتی ہے اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
امریکہ افغانستان کے حوالے سے پہلے دن سے ہی بدنیت تھا۔ غیرت مند سپہ سالار کسی ملک میں فوجیں اتارتے ہیں تو اپنے فوجیوں کو فتح کا سبق دیتے ہیں یا پھر شہادت کا اور اس مقصد کے لیے واپسی کے رستے بند کر دیتے ہیں یا کشتیاں جلا دیتے ہیں۔ لیکن امریکہ بہادر نے افغانستان پر غاصبانہ قبضے کے بعد واپسی کے رستے کھلے رکھے اور مکمل ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے جاتے جاتے رہ جانے والے سامان حرب کو اپنی اتحادی حکومت کو دینے کی بجاے تباہ کر دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ اپنی افغان اتحادی حکومت سے بھی مخلص نہ تھا۔
اب امریکی انخلا کے بعد افغانستان کی صورتحال پرحال ہی میں اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ کو چیف آف آرمی سٹاف اور ان کی ٹیم کی طرف سے ایک بریفنگ دی گئی جس کی رپورٹ بھی حوصلہ افزا نہیں۔اس بریفنگ کے مطابق افغان طالبان کو سیاسی حل پر آمادہ کرنے کیلئے ہرحربہ استعمال کیا لیکن وہ کسی طور پر کسی کی بات نہیں مان رہے۔ اس بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔ افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان اندر سے ایک ہیں اور ایک پیج پر ہیں۔اس بریفنگ میں اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا کہ افغان حکومت کوافغانستان میں ہماری امن کی کوششوں کا علم ہے لیکن وہ پھر بھی کسی کے اشارے پر ہمارے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلا کر حالات خراب کرنے کے درپے ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ کہ طالبان بزو طاقت کابل پرقبضہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس میں شاید زیادہ وقت نہ لگے۔ مزید یہ کہ طالبان طاقت کے بل پر کابل پر قابض ہوئے تو اس کے نتیجے میں شدید خانہ جنگی کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس خانہ جنگی کے نتیجے میں پاکستان کو ایک بار پھر مہاجرین اور اس سے جڑی دیگر حوالوں سے مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ بھی بتایاگیا کہ اس صورت کا فائدہ پاکستان کے اندر ٹی ٹی پی اٹھائے گی اس کی ایک مثال گزشتہ روز کچھ طلباء کے اجتماع میں طالبان کے حق میں نعرہ بازی کی صورت میں ظاہر ہو چکا ہے۔ بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ریاست پاکستان کااب افغانستان میں مزید کوئی فیورٹ نہیں اور افغان جو بھی حکومت بنائے ہمیں قابل قبول ہوگا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ امریکہ سابقہ معاہدے کی تحت پاکستان کی فضا آمدو رفت کے لیے استعمال کررہا ہے لیکن امریکہ کو بتا دیا ہے کہ اس سے زیاہ کچھ اور نہیں دے سکتے۔ اس بات کی بھی تصدیق کی گئی کہ امریکی کا پاک چین دوستی کے حوالے سے شدید دباؤ ہے لیکن ہم نے واضح کر دیا ہے کہ امریکہ سے تعلقات کی قیمت پر چین کو نہیں چھوڑیں گے۔ یعنی افغانستان جنگ میں بیس سال امریکہ کا ساتھ دے کر ہم آج بھی ایک دو راہے پر کھڑے ہیں اور ہمیں اپنے دوست چننے کا بھی حق نہیں۔ پارلیمنٹ کو ان کیمرہ بریفنگ کے علاوہ پالیسی سازی کا حق بھی دینا چاہیے۔
قارئین اپنی رائے کے اظہار کے لیے اس نمبر 03004741474 پر وٹس ایپ، سگنل، بی آئی پی یا ٹیلیگرام کر سکتے ہیں۔
امریکی حماقتیں اور ہم ……
11:38 AM, 11 Jul, 2021