اسلام آباد (جہانزیب عباسی) وزیر اعظم شہباز شریف کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈیم ایم) جماعتوں پر مشتمل وفاقی اتحادی حکومت نے سپریم کورٹ کو سیاست دانوں اور پارلیما ن پر اعتماد کرنے کا کہا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا ءبندیال نے نیب قانون میں ترامیم کیخلاف کیس میں ریمارکس دیئے اعتماد ہی تمام معاملات کا مرکز ہے،ججز بھی عوامی اعتماد کے ضامن ہیں۔ حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا یہ بات درست ہے کہ اعتماد بہت اہم ہوتا ہے،عدلیہ بھی پارلیمنٹ اور سیاستدانوں پر اعتماد کرے، عمران خان بطور وزیر اعظم،شوکت ترین بطور وزیر خزانہ،فواد چوہدری بطور وزیر اطلاعات نیب قانون پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے،اب نیب قانون میں تبدیلی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا،تمام تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرانے کیلئے تیار ہوں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے نیب قانو ن میں ترامیم کیخلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت حکومتی وکیل ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا عدالت نے گزشتہ سماعت پر یہ سوال پوچھا تھا نیب ترامیم کے حق میں کتنے اراکین نے ووٹ دیا، 159 سے زیادہ اراکین نے نیب قانون کے حق میں ووٹ دیا،اکثریت کے ذریعے پارلیمنٹ نے نیب ترامیم کا قانون پاس کیا، عجیب بات ہے ایکٹ آف پارلیمنٹ وہ چیلنج کر رہا ہے جو خود رکن پارلیمنٹ ہے، یہ بھی عجیب بات ہے نیب قانون کو چیلنج کرنے والے سابق وزیر اعظم عمران خان کئی بار نیب قانون پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں، کئی مواقعوں پر سابق وزیر اطلاعات، سابق وزیر قانون اور سابق وزیر خزانہ بھی نیب قانون پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں،اگر عدالت کہے تو میں تحریک انصاف کے مرکزی قائدین کے بیانات کو یو ایس بی کی صورت میں عدالت پیش کرسکتا ہوں، جس قانون پر اعتراض اٹھایا جاتا رہا اب اسی قانون کو چیلنج کیا گیا،ایکٹ آف پارلیمنٹ غیر آئینی ہے یا نہیں یہ ثابت کرنا درخواست گزار کے زمہ ہے،عدلیہ کو ہر وہ جواز تلاش کرنا چاہیے جس کے تحت قانون کو برقرار رکھا جاسکے،اگر قانون میں کوئی سقم ہے تو پارلیمنٹ کے ذریعے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ موجودہ کیس میں نیب قانون کی بہتری دیکھ رہے ہیں، ضروری نہیں کہ قانون کو کالعدم ہی قرار دیا جائے، قانون کو کالعدم قرار دینے کے علاوہ بھی عدالت کے پاس آپشن موجود ہیں، قانون کو آئین کے مطابق ہونے پر ہی آگے بڑھنا چاہئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اگر نیب ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہوئیں تو ہی عدالت آپشنز پر غور کرے گی جس پر وکیل صفائی نے جواب دیا کوئی بھی ایسا قانون قائم نہیں رہ سکتا تو بنیادی حقوق سے متصادم ہو۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا عدالتیں سیاسی فیصلے کرنے کی جگہ نہیں ہیں، کیا عدالت متنازع معاملات پر فیصلے کرنے لگے تو کیا مزید تنازعات پیدا ہوتے ہیں؟اس کیس میں سیاسی تنازعہ بھی ہے۔ تحریک انصاف کے وکیل نے دلائل میں کہا پاکستان بننے کے وقت سے کرپشن بیماری کی صورت میں موجود ہے، ہمارا معاشرہ کرپشن کی بیماری کا شکار ہے،عوامی مفاد اور انفرادی فائدہ اٹھانے والوں کے درمیان توازن ہونا چاہئے،سوال یہ ہے کہ عدالت نے آئین کا دفاع اور تحفظ کیسے کرنا ہے،آئین کا مطلب پاکستان کی عوام ہے،سوال یہ بھی ہے کہ فیصلہ کرنے میں عدالت کہاں اور کس حد تک جا سکتی ہے،پبلک آفس ہولڈرز قابل احتساب ہیں،اگر حالیہ نیب ترامیم سے احتساب کا معیار گرا ہوا ہے تو عدالت ان کو برقرار کیسے رکھ سکتی ہے؟جب سے پاکستان بنا انسداد کرپشن قوانین بنے ہوئے ہیں، انسداد کرپشن قوانین کی وجہ سے ہی عوامی عہدیدار قابل احتساب ہیں، ہم نے سماجی یا سیاسی مسائل کو نہیں دیکھنا، اعتماد ہی تمام معاملات کا مرکز ہے،پبلک آفس کے لیے ڈاکٹرائن آف ٹرسٹ ضروری ہے،ججز بھی عوامی اعتماد کے ضامن ہیں، ججز بھی قابل احتساب ہیں، ججز پیسے کے قریب بھی نہیں جا سکتے،سپریم کورٹ کو ایک معاملے میں فنڈز ملے وہ اسٹیٹ بنک میں جمع کرا دیے،آج بھی انتظار کر رہے ہیں کہ فنڈز استعمال ہوں، اگر سپریم کورٹ فنڈز کی تفصیلات اسٹیٹ بنک کی ویب سائٹ پر نا ڈالتی تو آج بھی تنقید ہو رہی ہوتی۔
وکیل صفائی نے ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے کہایہ بات درست ہے کہ اعتماد بہت اہم ہوتا ہے،عدلیہ بھی پارلیمنٹ اور سیاستدانوں پر اعتماد کرے۔چیف جسٹس نے کہا عدالت کو پارلیمنٹ پر اعتماد ہے مگر عوام کا اعتماد عدلیہ پر ہے،کچھ بنیادی لوازمات ہیں جس پر عدالت نے بھی عمل کرنا ہے۔کیس کی سماعت کل دن ڈیڑھ بجے تک ملتوی کردی گئی۔