اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نیشنل پارک مارگلہ ہلز میں تجاوزات کیخلاف کیس کے دوران ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد میں جو کچھ ہورہا ہے وہ پریشان کن ہے، اسلام آباد میں لاقانونیت ہے، مسلح افواج کا متنازعہ ہونا عوامی مفاد میں نہیں ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیشنل پارک مارگلہ ہلز میں تجاوزات کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی ۔ سیکرٹری داخلہ ، سیکرٹری دفاع اور چیئرمین سی ڈی اے عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔معاون خصوصی برائے ماحولیات ملک امین اسلم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیاہے ۔ وہ قرنطینہ میں ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے اس فیصلے پر عمل نہیں کیا گیا جس میں ریاستی زمین پر تجاوز کیا گیا ۔ تین آرمڈ فورسز کے سیکٹر بن گئے ہیں، ان تین سیکٹرز کی وجہ سے کوئی مسئلہ کیوں ہو؟مارگلہ ہلز نیشنل پارک ایریا میں کوئی سرگرمی نہیں ہوسکتی، یہ وفاقی حکومت کی زمین ہے جہاں سے کسی کو گھاس تک کاٹنے کی اجازت نہیں۔ اس زمین کی ملکیت ٹرانسفر نہیں ہوئی۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ یہاں کسی کے دفاع کے لیے کھڑے ہیں جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں عدالتی معاون ہوں، توعدالت نے کہا کہ آپ عدالتی معاونت نہیں کررہے، 8ہزار ایکڑ اراضی کا کون دعویدار ہے؟ کس قانون کے تحت 8 ہزار ایکٹر اراضی کی ملکیت کا دعویدار ہے ۔ اس عدالت نے نیشنل پارک کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے، نیشنل پارک وفاقی حکومت کی ملکیت ہے، 8 ہزار ایکڑ اراضی نیشنل پارک کا ایریا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مونال کا کیا اسٹیٹس ہے؟ وہ وہاں کیسے تعمیر ہوسکتا ہے؟ مونال کی لیز ختم ہوگئی ہے اسے آج ہی سیل کردیں۔
چیف جسٹس نے سی ڈی اے کو حکم دیا کہ آج ہی نیوی گالف کورس کا قبضہ لے۔عدالت نے سیکرٹری دفاع کو نیوی گالف کورس کے ذریعے تجاوزات کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ۔ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی نشاندہی بھی جلد مکمل کرنے کا حکم دیا۔