یہ قضا روز جنازے کئی ڈھونے لگی ہے

یہ قضا روز جنازے کئی ڈھونے لگی ہے

جاوید عارف ہمارے عہد کے خوبصورت ادیب ہیں۔بنیادی تعلق تو اوکاڑا ہی سے ہے مگر آوارہ گردی میں پتہ نہیں کہاں کہاں سے اور کہاں تک سے ہو آئے ہیں۔بیک وقت اردو اور پنجابی زبان میں غزل کے ساتھ نظم بھی کہتے ہیں۔اردو کے علاوہ پنجابی غزل کا ایک پراگا بھی منصہ شہود پر لا چکے ہیں۔۔دو سفر ناموں کے خالق ہیں۔’’الف امریکہ ‘‘ سفر نامہ ادبی حلقوں میں آج بھی پذیرائی کا متحمل بنا ہوا ہے گویا جاوید عارف شش جہات سے ہی ادیب تصور کیا جاتا ہے ان کی وال سے ایک واقعہ قارئین کی نذر ہے۔ایک حاجی صاحب کافی بیمار تھے۔کئی سال سے ہر ہفتے پیٹ سے چار بوتل پانی نکلواتے تھے۔اب ان کے گردے واش ہوتے ہوتے ختم ہوچکے تھے۔ایک وقت میں آدھا سلائس ان کی غذا تھی۔ سانس لینے میں بہت دشواری کا سامنا تھا۔نقاہت اتنی کہ بغیر سہارے کے حاجت کیلئے نہ جاسکتے تھے۔ایک دن چودھری صاحب ان کے ہاں تشریف لے گئے اور انہیں سہارے کے بغیر چلتے دیکھا تو بہت حیران ہوئے انہوں نے دورسے ہاتھ ہلا کر چودھری صاحب کا استقبال کیا،چہل قدمی کرتے کرتے حاجی صاحب نے دس چکر لان میں لگائے،پھر مسکرا کر ان کے سامنے بیٹھ گئے،ان کی گردن میں صحت مند لوگوں جیسا تناؤ تھا۔چودھری صاحب نے ان سے پوچھا کہ یہ معجزہ کیسے ہوا؟کوئی دوا، کوئی دعا، کوئی پیتھی، کوئی تھراپی۔ آخر یہ کمال کس نے دکھایا۔حاجی صاحب نے فرمایا میرے ہاتھ میں ایک ایسا نسخہ آیا ہے کہ اگر دنیا کو معلوم ہوجائے تو سارے ڈاکٹر، حکیم بیروزگار ہوجائیں۔سارے ہسپتال بند ہوجائیں اور سارے میڈیکل سٹوروں پر تالے پڑجائیں۔چودھری صاحب مزید حیران ہوئے کہ آخر ایسا کونسا نسخہ ہے جو ان کے ہاتھ آیا ہے۔حاجی صاحب نے فرمایا کہ میرے ملازم کی والدہ فوت ہوگئی،میرے بیٹوں نے عارضی طورپر ایک چھ سات سالہ بچہ میری خدمت کیلئے دیا، میں نے ایک دن بچے سے پوچھا کہ آخر کس مجبوری کی بنا پر تمہیں اس عمر میں میری خدمت کرنا پڑی،بچہ پہلے تو خاموش رہا پھر سسکیاں بھر کر بولا کہ ایک دن میں گھر سے باہر تھا،میری امی، ابو، بھائی، بہن سب سیلاب میں بہہ گئے۔میرے مال مویشی ڈھور ڈنگر، زمین پر رشتہ داروں نے قبضہ کرلیا۔اب دنیا میں میرا کوئی نہیں۔اب دو وقت کی روٹی اور کپڑوں کے عوض آپ کی خدمت پر مامور ہوں۔یہ سنتے ہی حاجی صاحب کا دل پسیج گیا اور پوچھا بیٹا کیا تم پڑھوگے بچے نے ہاں میں سرہلا دیا۔حاجی صاحب نے منیجر سے کہا کہ اس بچے کو شہر کے سب سے اچھے سکول میں داخل کراؤ۔بچے کا داخل ہونا تھا کہ اس کی دعاؤں نے اثر کیا،قدرت مہربان ہوگئی،میں نے تین سال کے بعد پیٹ بھر کر کھانا کھایا،سارے ڈاکٹر اور گھروالے حیران تھے۔اگلے روز اس یتیم بچے کو ہاسٹل میں داخلہ دلوایا اور بغیر سہارے کے ٹائلٹ تک چل کرگیا، میں نے منیجر سے کہا کہ شہر سے پانچ ایسے اور بچے ڈھونڈ کرلاؤ جن کا دنیا میں کوئی نہ ہو۔پھر ایسے بچے لائے گئے انہیں بھی اسی سکول میں داخل کرادیا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور آج میں بغیر سہارے کے چل رہا ہوں۔سیر ہوکر کھاپی رہا ہوں اور قہقہے لگارہا ہوں۔ حاجی صاحب سینہ پھلا کر گلاب کی کیاریوں کی طرف چل دئیے اور فرمایا میں اب نہیں گروں گا جب تک کہ یہ بچے اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو جاتے۔حاجی صاحب گلاب کی کیاریوں کے قریب رک گئے اور ایک عجیب فقرہ زبان پر لائے۔۔ ’’قدرت، یتیموں کو سائے دینے والے درختوں کے سائے لمبے کردیا کرتی ہے۔ایک ہم ہیں جو ہوس و لالچ کی تمام حدیں عبورکر چکے ہیں۔حقوق اللہ تو ایک طرف حقوق العباد کا لفظ ہماری دلی اور ذہنی لغت سے خارج ہو چکا ہے۔ہمیں اگر خبر ہو جائے کہ چند دنوں میں قیامت وارد ہو جائے گی تو ہم کفن تک مہنگا کر دیں گے۔نہ ہمیں موجودگاں کی خبر ہے اور نہ ہم نے رفتگاں سے کوئی سبق سیکھا ہے۔مری میں قیامت خیز منظر بپا ہوا مگر اہالیانِ مری نے سنگ دلی کی انتہا کردی۔برادرانِ یوسف سے کئی گنا بڑی مثال قائم کر دی۔تین ہزار روپے والے کمرے کا بیس ہزار کرایہ کر دیا۔کمرہ گرم کرنے والے ہیٹر کا کرایہ ایک ہزار روپیہ فی گھنٹہ کے حساب سے چارجز بڑھا دیے۔چائے کے کپ کی قیمت میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔انڈے کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی۔سوپ کو خریدنے کی سکت جواب دے گئی۔اہالیانِ مری سے جو کچھ بھی مہنگا ہو سکا،انہوں نے کیا۔کیا ہی اچھا تھا کہ مشکلات میں گرے ہوئے بھائیوں کی مدد کی جاتی؟ان کے لیے گھروں اور دل کے در وا کر دیے جاتے؟دل کھول کر ان کی خدمت کی جاتی۔مواخاتِ مدینہ کی مثال زندہ کی جاتی۔مہمان نوازی کرکے نبی محمدﷺ کی سنت پر عمل کیا جاتا۔کاش مری میں کوئی حاجی صاحب جیسا مل جاتا جو موجودگان کو سنبھالا دیتا مگر افسوس ہمارے دلوں سے سب کچھ جا چکا ہے۔ دولت اور سرمایہ ہی ہمارا سب کچھ بن چکا ہے۔کاش اے کاش انسانیت ہمارے اندر جاگ جائے اور ہم یتیموں، مسکینوں، بے سہاروں، لاوارثوں اور مصیبت زدوں کے کام آ سکیں۔مگر ہماری حالت ابتری کو چھو چکی ہے۔۔بقول مسعود احمد
حالت سوگ میں ہم تین سو پینسٹھ دن ہیں
یہ قضا روز جنازے کئی ڈھونے لگی ہے