جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنی صحت کے حوالے سے جس سخت آزمائش یا اذیت میں مبتلا رہے اْس کے بارے میں یقینالوگ جانتے ہوں گے، دْنیا میں بہت کم انسان اس مْوذی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، یہ مرض کینسر سے زیادہ خوفناک ہے، دعا ہے اس بیماری میں مبتلا ہر شخص کی مْشکل اللہ آسان فرمائے، یہ وہ بیماری یا وہ آزمائش ہے جس میں کوئی انسان مبتلا ہو جائے اْس کے عزیز واقارب خود یہ دعا کرتے ہیں اللہ اْس کی آسانی فرق دے جو ظاہر ہے موت کی صورت میں ہی ہوتی ہیں، جیسے ہمارے ممتاز شاعر سیف الدین سیف کا ایک شعر ہے
موت سے ترے درد مندوں کی
مْشکل آسان ہو گئی ہوگی
اللہ اْن کی اگلی مْشکلیں اور منزلیں آسان فرمائے، بطور ایک مسلمان اور انسان یہی دعا ہر مرنے والے کے لئے ہمیں کرنی چاہئے نہ کہ ہم اْس کے لئے جنت اور دوزخ کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لے کر بیٹھ جائیں، حدیث پاک ہے ”جب کوئی دْنیا سے چلا جائے اْس کی عیب جوئی مت کرو“، اس حدیث پاک کی روشنی میں جنرل مشرف کی عیب جوئیوں سے گریز کرنا چاہئے، مرنے والوں کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے ہمیں موت پڑتی ہے یا ہمارا ظرف ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا تو اْس کی خامیاں بھی نہیں گنوانی چاہئیں، میں خود جنرل مشرف کے عتاب اور انتقامی کارروائیوں کا شکار رہا، اذیتوں کی یہ طویل داستان میں اْس وقت لکھ چْکا ہوں جب وہ صحت مند اور اقتدار میں تھے، اب اْن کے مرنے کے بعد اس داستان کو دہرا کر اپنی ذات کو ہیرو بنا کر پیش کرنا اور اْنہیں ولن بنا کر پیش کرنا اخلاقی لحاظ سے درست ہے نہ دینی لحاظ سے، یہ بدلحاظی یا بداخلاقی مجھ سے نہیں ہوتی،ہم نے اکثر اپنے بزرگوں سے سْنا ہے”کوئی شخص دْنیا میں جتنا عرصہ کسی سخت بیماری یا آزمائش میں مبتلا رہتا ہے اور اس سے جو اذیت اْسے ملتی ہے اْس دوران اللہ اْس کے ان گنت گناہ معاف فرماتا رہتا ہے“۔۔ اللہ پوری دْنیا کو صحت سلامتی عطا فرمائے، صحت بڑی نعمت ہے، میں نے کہیں پڑھا تھا حضرت موسی علیہ اسلام کو چونکہ اللہ سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل تھا، ایک بار اْنہوں نے اللہ سے پوچھا ”اے میرے مالک اگر میں رب ہوتا آپ موسی ہوتے آپ مجھ سے کیا مانگتے؟“، اللہ نے فرمایا”موسیٰ میں تم سے صحت مانگتا“۔۔ہم دولت کی قدر میں اس قدر ملوث ہیں صحت کی قدر اْس کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گئی ہے، لوگوں کی دولت بڑھتی جا رہی ہے صحت گرتی جا رہی ہے، بڑے بڑے دولت مند بڑے بڑے طاقتور بے شمار ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں اْن سے نجات کے لئے دولت اْن کے کسی کام نہیں آتی، بالاآخر وہ مر جاتے ہیں، تازہ ترین مثال جنرل مشرف کی ہے، دولت اْن کے پاس بھی بہت تھی، اْن کے کسی کام نہیں آئی، میں کچھ عرصہ پہلے دبئی گیا، میرا جی چاہا میں اْنہیں دیکھوں اْن کی عیادت کروں، دبئی میں مقیم کچھ اثرو و رسوخ والے دوستوں نے اس کا اہتمام کر دیا، دبئی کے امریکن ہسپتال میں جس حالت میں زرا دْور سے میں نے اْنہیں دیکھا میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، اْن کی مْشکل آسان ہونے کی دعا کر کے میں فوراً وہاں سے نکل آیا، واپسی پر میں سوچ رہا تھا جب تک انسان صحت اور طاقت کے نشے میں ہوتا ہے وہ اس زعم میں مبتلا رہتا ہے یہ طاقت یہ صحت ہمیشہ اْس کے ساتھ رہے گی، اْس کے مْکے ہمیشہ لہراتے رہیں گے، اْس کے حکم ہمیشہ چلتے رہیں گے، وہ اپنی صحت کو حکم دے گا تم نے ہمیشہ رہنا ہے وہ ہمیشہ رہے گی، مگر دْنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے یہ سب عارضی ہے، دوران اقتدار جنرل مشرف سے جو گناہ ہوئے، جس تکبر کا وہ شکار رہے، میرے خیال میں اْس کے نتائج وہ دْنیا میں ہی بْھگت گئے ہیں، یہ نتائج قدرت کی طرف سے تہے، کسی انسان کی کیا جْرات پاکستان میں کسی جرنیل کے جرائم کا وہ حساب لے سکے، سو اپنے گناہوں کا حساب وہ دْنیا میں دے گئے، اللہ اْن کی اگلی منزلیں آسان فرمائے اور اْن لوگوں کو ہدایت بخشے جو اْن کے انجام سے سبق سیکھنے والے نہیں، اْنہیں بھی ہدایت بخشے جو خوف خدا سے مکمل طور پر عاری ہو کر اْن کے لئے دعائے مغفرت کرنے سے انکاری ہیں، وہ شاید یہ سوچتے ہوں گے دعائے مغفرت کر کے کون سے اْنہیں کوئی عہدے، پیسے پلاٹ یا پرمٹ وغیرہ ملنے ہیں۔۔ نیتوں کے احوال اللہ جانتا ہے جنرل مشرف کے بے شمار کام ایسے تھے اْن کے اقتدار میں جن پر سخت تنقید ہوتی رہی، خصوصاًاْس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ جو ”بدسلوکی“ اْنہوں نے کی اْس پر اْن کے خلاف پوری ایک مہم چلائی گئی، میری اطلاع کے مطابق اس مہم میں اْن کے”اپنے لوگ“بھی شامل تھے، اْس وقت ججوں کے خلاف اْن کی انتقامی کارروائیوں کو لوگوں نے سخت ناپسند کیا، مگر بعد میں افتخار حسین چودھری نے جو”کارنامے“ انجام دئیے اْن پر اْٹھی ہوئی اْنگلیاں اب تک نیچے نہیں ہوئیں، اْن کے صاحبزادے ارسلان افتخار چودھری کی جو ہوش رْبا داستانیں منظر عام پر آئیں اْس سے یہ سوال پیدا ہوا اْن کے خلاف جنرل مشرف کے اقدامات کس حد تک غلط تھے؟۔۔ میں حیران ہوں کچھ ججوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے جب ”دیگر راستے“ روز اوّل سے موجود ہیں پھر جنرل مشرف کو اتنا ”کھلارا“ ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟ جب”چارے“ سے کام چل سکتا تھا کھلارے سے کیوں چلایا؟، یہ کھلارا بعد میں اْن کے اقتدار کو کمزور کرتا چلا گیا، ویسے بھی جب ہمارے کچھ جرنیلوں اور کچھ ججوں کے کردار ملتے جلتے ہوں پھر بے شمار مسائل اْنہیں مل بیٹھ کر حل کر لینے چاہئیں، مجھیں مجھوں کی بہنیں ہوتی ہیں تو بہتر نہیں گھر کے معاملات گھر یا”چڑیا گھر“ میں بیٹھ کر طے کر لئے جائیں؟، ممکن ہے شدید ذاتی مفادات کا ٹکراؤ ان معاملات کو سْلجھنے نہ دیتا ہو، آج ہم پورے وثوق سے یہ کہہ سکتے ہیں جنرل مشرف مر گیا اور عدلیہ ابھی تک زندہ ہے؟ یاہم پورے وثوق سے یہ کہہ سکتے ہیں جنرل مشرف مر گیا اور اْس کے بعد اب اْن جیسا کوئی کردار پیدا نہیں ہوگا؟۔۔ جنرل مشرف کو اْن کی غیر آئینی سرگرمیوں پر ”غدار“ قرار دیا گیا، اصل”غدار“ وہ تھے جنہوں نے اْن کے غیر آئینی اقدامات کو ”آئینی تحفظ“ دیا، کیا اْن کرداروں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟ اْنہیں کوئی سزا ہوئی؟۔۔ غالب یاد آئے
عمر بھر ہم یوں غلطی کرتے رہے غالب
دھول چہرے پہ تھی اورہم آئینہ صاف کرتے رہے
یہ آئینہ پہلے صرف گندہ تھا اب کہیں دیکھائی ہی نہیں دیتا، جب ضمیر مکمل طور پر مر چکے ہوں، قانون اپنے مفادات اور مرضی کے مطابق توڑا مروڑا جا رہا ہو شرم و حیا کا کہیں نام و نشان نہ مل رہا ہو، ایسی صورت میں کسی کے مرنے کے بعد اْس کی عیب جوئیاں کرنا صرف اْن لوگوں کو زیب دیتا ہے جنہیں مرنا یاد نہ ہو۔۔ دْشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجنا وی مر جانا۔۔ کیسا زمانہ آگیا ہے اب دْشمن کیا”سجنوں“ کے مرنے پر بھی لوگ افسردہ نہیں ہوتے۔۔ جنرل مشرف کی سب سے بڑی ”خرابی“ یہ تھی اْن کا اقتدار ختم ہوگیا، اْس سے بھی بڑی”خرابی“ یہ ہے اب اْن کی سانسیں بھی ختم ہو گئیں۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔