لوگ کہاں رہ گئے ہیں، درد کی مجسم تصویریں ہیں جو اپنی صلیبیں اٹھائے مصلوب ہونے کیلئے مقتل کی طرف رواں دواں ہیں۔ یہ شہر کبھی ایسا نہیں تھا میں نے اسے قہقہے لگاتے اور زیر لب مسکراتے بارہا دیکھا ہے۔ کھانے کو نہ ملے تو سب سے پہلے بھوک غیرت کو نگل جاتی ہے، یہی سنا تھا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہاں بھوک نہیں بسیار خوروں کی غیرت کو موت آ چکی ہے۔ دولت اور مزید دولت کی ہوس میں اپنے ہی لوگوں کو دکھ اور کرب میں مبتلا رکھنا بدترین فعل ہے جو تواتر سے ہمارے معاشرے کی رولنگ ایلیٹ کا وتیرہ بن چکا ہے۔ 75 سال سے قومی خزانہ کبھی عوام کے پاس نہیں رہا یہ دکان بالا دست طبقے نے چلائی ہے تو پھر آج حساب بھی انہیں ہی دینا ہو گا۔ اسٹیبلشمنٹ کام نہیں کرنے دیتی تو گیٹ نمبر 4 کی پیداوار اولاد کس بل بوتے پر الیکشن کا ڈرامہ رچا کر قوم کو یوتھیا، پٹواری یا جیالا بنا کر لوگوں کی زندگیاں اور اُن کے بچوں کا مستقبل برباد کرتے ہیں کیونکہ ”اعلیٰ نسل کے عربی اور آسٹریلین گھوڑوں“ کی نسل بچانے کیلئے ہم مجبور ہیں۔ ہم کیوں ان کے اہرام نما محلوں کے باہر حنوط شدہ ممیوں کی طرح نسل در نسل کھڑے اِن کے فرسودہ نظریات کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جمہوریت حکمران اشرافیہ کیلئے ضروری ہے کیونکہ جمہوریت اِن کا نفع بخش کاروبار ہے۔ آمریت سے بھی یہی طبقہ مسفید ہوتا ہے یعنی جمہوریت بھی تمہاری اور آمریت بھی تمہاری تو پھر عوام کا اس جغرافیے میں کیا رکھا ہے؟ وطن میدانوں، دریاؤں، پہاڑوں، ندی نالوں، جھیلوں، جھرنوں یا اداروں کا نام نہیں ہوتا وطن اس زمین کو کہتے ہیں جو اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو زیادہ سے زیادہ ضرورتیں، سہولتیں اور ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرتی ہے۔ جو زمین اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو ضرورتیں اورسہولتیں فراہم نہیں کرتی۔ لوگ وہا ں سے ہجرت کر جاتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طر ح پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کا ضمیر اُن کے وجود سے ہجرت کر چکا ہے۔ جنہوں نے اس سماج کو بدترین طبقات میں بانٹ کر دو بچوں کی تعلیم، دو ماؤں کی محبت، دو مریضوں کی ضرورتوں، دو بیروزگاروں کے روز گار تک میں طبقے کی تفریق کر رکھی ہے۔ اسی بالا دست طبقے نے پاکستان دو لخت کرایا، اس بالا دست طبقے نے ہمیں افغانستان کی جنگ میں پہنچایا، اسی بالادست طبقے نے عوامی قائدین کو کبھی عدالتوں اورکبھی سڑکوں پر قتل کرایا، یہی وہ قابل ِ نفرت طبقہ ہے جس نے مقبول اور محبوب لیڈروں کو جلا وطن کیا، یہی وہ مکروہ طبقہ ہے جس نے غربت، بھوک، ننگ، بیروزگاری، جاہلت، عدم تخفظ اور بے یقینی جیسے بے رحم قاتل عام پاکستانیوں کے دروازوں پر بھیجے۔ پاکستانیوں کو کبھی وطن کے نام پر، کبھی مذہب کے نام پر، کبھی بھارت دشمنی کے نام پر، کبھی امریکی دشمنی کے نام پر، کبھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جعلی پولیس مقابلے کے نام پر اور کبھی ایک نظر نہ آنے والی خوشحالی کے نام پر اُس وادی میں اتار
دیا ہے کہ چلتے رہیں تو ایک بے رحم موت مقدر بن جائے اور مڑ کر دیکھیں تو پتھر کے ہو جائیں۔ رات گئے جب بیروزگار باپ خالی ہاتھ گھر کے دروازے کے قریب پہنچتا ہے تو اُس کے قدموں کی چاپ سے جھوٹ موٹ کی آنکھیں بند کیے، بھوک کی شدت سے جاگتے بچے اس آس پر بیداری کا بہانہ کرتے ہیں کہ باپ کھانے کیلئے کچھ لے کر آیا ہو گا۔ بیوی کے دل کی دھڑکنیں بھی یقین اور بے یقینی کے ملے جلے جذبات سے بے ترتیب ہونا شروع ہو جاتی ہیں لیکن جب وہ اپنے خاوند کا جھکا ہوا سر دیکھتی ہے تو اُس کے دل پر گزرنے والی قیامت کبھی قیامتِ صغری نہیں ہوتی۔ روٹی کی آس بھوکے کی بھوک اور چمکا دیتی ہے اور اس چمک میں شدت اُس وقت اور زیادہ آ جاتی ہے جب بچوں کو معلوم ہو کہ اُن کا باپ کچھ نہ کچھ ضرور لائے گا کیونکہ وہی اُن کا رازق اور ہیرو ہوتا ہے۔ اے حاکمانِ پاکستان اس ریاست میں پلنے والے بچوں کا اعتماد آپ سے اٹھ رہا ہے یعنی مستقبل آپ کا نہیں ہے۔ کوئی نیا عمران خان پھر آرڈر پر بنوا کر مارکیٹ میں لے آئیں جو اس بار دو کروڑ نوکریاں، ایک کروڑ مکان، چار سو ارب ڈالر، تیس دن میں کرپشن کا خاتمہ، لاتعداد انسانوں کی پھانسیوں کی لسٹ اور نئے سے بھی نیا پاکستان بنانے کا نیا عہد نامہ لے کر عوام کے سامنے آئے۔ پرانے چہرے بیکار ہو چکے ہیں، عوام کسی کا اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ کسی رات یہ بھیڑ بکریوں کا ہجوم سو رہا ہو تو ایک دم سے چیخ و پکار کی آوازیں اٹھنا شروع ہو جائیں اور اُس کے بعد قتل ہونیوالے کو معلوم نہ ہو کہ اُسے کس جرم میں قتل کیا گیا ہے اور قتل کرنا والا بھی نہ جانتا ہو کہ اُس کی مقتول سے کیا دشمنی تھی۔ کسی بھی بڑے انسانی المیے کا ذمہ دار صرف بالا دست طبقہ ہو گا جو ہر سیاسی جماعت کی اسٹیبلشمنٹ میں موجود ہے اور اقتدار کو پاکستان کے عام آدمی سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے الیکشن کو جتنا مہنگا بنا دیا ہے عام آدمی اسے لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جس کا دوسرا مطلب ہے کہ پاکستان کا ایوان ِ زیریں اور بالا میں کبھی عام آدمی نہیں ہو گا۔ پاکستانیوں کیلئے قانون سازی کرنے والے پاکستانیوں کے مسائل سے ہی واقف نہیں تو ان حالات میں اچھے کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ عالمی سود خوروں کے نرغے میں پھنسا پاکستان آخر ی معاشی ہچکیاں لے رہا ہے لیکن کسی سیاست دان کا یہ مسئلہ ہی نہیں۔
پاکستانی عوام کو اپنے دکھوں کے مداوے کیلئے ایسے کسی بھی الیکشن کا نہ صرف مکمل بائیکاٹ کرنا ہو گا بلکہ اپنے علاقے میں آنے والے امیدوار کا احتساب قبل از الیکشن کرنا ہو گا۔ اِن سے اپنے بچوں کی بھوک، تعلیم، صحت اور اپنی بیروزگاری اور اداروں کی منہ زوری بارے ضرور پوچھنا پڑے گا۔ اگر یاد نہیں رہا تو ایک بار پھر یاد دہانی کیلئے نقشہ غور سے دیکھ لیں ہمارے ایک طرف افغانستان، دوسری طرف چین، تیسری طرف ایران اور چوتھی جانب بھارت ہے جس سے ہماری ازلی اور روایتی دشمنی کی کہانیاں ہم نے اپنے بچوں کو ڈنڈے کے زور پر تیار کرائی ہیں۔ چین سے ہماری دوستی بحر ہند سے گہری اور ہمالیہ سے بلند ہے سو وہ ہمیں یا تو سمندر کی تہہ میں چھوڑ کر آئے گا یا پھر پہاڑوں میں۔ افغانیوں نے گزشتہ پانچ ہزار سال میں سوائے رنجیت سنگھ سے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی اور جب تک آپ کے سر پر سعودی حکمرانوں کا سایہ ہے ایران سے کوئی اچھی امید رکھنا حماقت ہو گی سو اس کے بعد ہمارے پاس صرف سمندر بچتا ہے جو سندھ سے لے کر بلوچستان تک ہے اور سمندر کسی کا دوست نہیں ہوتا۔
پاکستان اپنے ملزمان کے بے رحم احتساب کا مطالبہ کر رہا ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل آپ کے پاس نہیں ہے۔ آپ کے معاشی مسئلہ کا حل بھی اسی بے رحم احتساب کی بنیادوں میں چھپا ہے اور پاکستان کا محفوظ اور پُرامن مسقبل بھی مگر افسوس کے یہ فیصلہ بھی انہیں عطار کے لونڈوں نے کرنا ہے جن کے سبب ہم اس حالت تک پہنچے ہیں۔ ہم ایسی عالمی تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں کہ سوائے دوسروں کے دلوں کی دھڑکن کے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی اور سناٹا بھی ایسا ہے کہ تارے چلنے کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے لیکن اگر ہمیں اس مقام سے بصد شان گزرنا ہے تو پھر دہائیاں دینے کے بجائے عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے کسی سماجی طبقے کیلئے نہیں صرف اور صرف پاکستان کیلئے۔۔۔ پہلی اور آخری بار۔۔۔ کیونکہ اب شہری تو ڈھونڈے نہیں مل رہے۔ صرف لوگ رہ گئے ہیں، درد کی مجسم تصویریں جو اپنی صلیبیں اٹھائے مصلوب ہونے کیلئے مقتل کی طرف رواں دواں ہیں۔ ہمیں انہیں مقتل میں پہنچنے سے پہلے بچانا ہو گا کہ یہی آئینی، قانونی، اخلاقی، سماجی اور مذہبی تقاضا ہے۔