عمران خا ن کانیا لاہور

Najam Wali Khan, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

یہ بات اتنی سادہ نہیں کہ جناب عمران خان ایک نیا لاہور بنانا چاہتے ہیں جس میں بہت سارے سپیشلائزڈ سٹی ہوں گے، عثمان بزدار چاہتے ہیں گندا نالہ بن جانے والے راوی میں چھیالیس کلومیٹر لمبی جھیل بن جائے جس سے لاہور کا واٹر لیول بہتر ہوجائے کہ جناب عمران خان کی حکومت کے پاس اب اٹھارہ ماہ ہیں، اپوزیشن اپنی جگہ پر لانگ اور مہنگائی مارچ شروع کر رہی ہے، ملک کی فضاوں میں حکومت کے جانے کی افواہوں نے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ شور مچا رکھا ہے، پہلی مرتبہ حکومتی اتحادی اپوزیشن والوں کے کھانے کھا اور کھلا رہے ہیں۔ یہ حکمران اٹھارہ ماہ میں کسی بڑے اوور ہیڈ برج کا منصوبہ مکمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، یہ پہلے سے موجود ایک لاکھ دو ہزا ر ایکڑ کے مقابلے میں ایک لاکھ چھ ہزار ایکڑ پر نیا لاہور کیسے بنا سکتے ہیں۔ آپ کویقین نہیں آتا تو اک موریہ پل کا منصوبہ دیکھ لیں اس کا افتتاح ان کے آنے سے بھی پہلے ہو چکا تھا وہ مکمل نہیں ہوا۔ گلاب دیوی کے انڈر پاس کو دیکھ لیں ، کئی ہفتے گزر چکے کہ وزیراعلیٰ افتتاح کر کے گئے تھے مگر اس پر یوٹرن ابھی تک بن رہا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ حکمران یہاں وہی کچھ کرنا چاہتے ہیں جس کو کرنے کے وہ ماہر ہیں۔ میں کالاخطائی نارنگ منڈی روڈ پر بہت سارے کسانوں کے ساتھ موجود تھا۔ وہ مجھے اپنے دور ، دور تک سرسبز کھیت دکھا رہے تھے، ان میں لہراتے ہوئے درختوں کے ذخیرے اور ان میں چرتے ہوئے ہزاروں مویشی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ یہی علاقہ ہے جودنیا کے آلودہ ترین شہر کا فوڈ بنک ہے، اس کا آکسیجن بنک ہے۔ یہ عجیب منطق ہے کہ سرسبز لہلاتے کھیتوںکو ختم کر کے کنکریٹ کے شہر بنیں گے اور اس سے آلودگی ختم ہو گی، نہیں نہیں، اس سے آلودگی مزید بڑھ جائے گی۔ یہ بھی جناب عمران خان کے دور میں ہی ہوا ہے کہ ہم گندم اور چینی جیسی اپنی پیداکی ہوئی اجناس درآمد کر رہے ہیں مگر دوسری طرف لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں ختم کررہے ہیں ، اپنی فوڈ سیکورٹی کا اپنے ہاتھوں خاتمہ کر رہے ہیں۔ یہ بات اتنی سادہ نہیں کہ حکمران رسول اللہ کی حدیث کے مطابق نیا شہر بسانا چاہتے ہیں کہ دنیا کے سب سے دانا شخص نے فرمایا تھا کہ جب کوئی شہر آبادی میں بہت بڑھ جائے، بہت پھیل جائے تواس کے پھیلاو کو روک دو، نئے شہر بساو۔ اگر حکمران اس حدیث پر عمل کرنا چاہتے تو وہ لاہور جو پہلے ہی ایک لاکھ دو ہزار ایکڑ پر پھیل چکا ہے، اس کے ساتھ ایک لاکھ چھ ہزار ایکڑ پر نظریں نہ گاڑلیتے۔ وہ سیدھے کھاریاں سے راولپنڈی تک موجود بنجر علاقے کا انتخاب کرتے، اسے سرسبزو شاداب کرتے، آباد کرتے۔
مصطفی رشید، پنجاب کے وزیر ہاوسنگ محمود الرشید کے سگے بھائی ہیں،وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ ان کا بڑا بھائی ان کے لئے باپ کی جگہ ہے، وہ ان کا بہت احترام کرتے ہیں مگر جہاں تک ریور راوی فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کی بات ہے تو یہ بہت بڑا فراڈ ہے۔ ان کے ساتھ کھڑے کسان باقاعدہ طور پر لینڈ مافیاز کے نام لے رہے تھے جن کو ان کی زمینیں چھین کر دی جانی ہیں۔ اس پراجیکٹ کی مخالفت کی دو بنیادیں ہیں۔ ایک بنیاد یہ ہے کہ لاہور پہلے ہی مسائل کی آماجگاہ بن چکا، اسے مزید پھیلانے کی کوئی ضرورت نہیں،اس سے مزید ٹریفک، مزید گندگی اورمزید شور کے سوا کچھ نہیں ملے گا، اس سے لاہوریوں کی دالیں ، سبزیاں اور دودھ سب بند ہوجائیں گے اور اگر ملیں گے تو دور دراز کے شہروں سے، مزید مہنگے اور مزید ناخالص۔ دوسری بنیاد بھی بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ اس سے ہزاروں کسانوں کے خاندان اپنے نسل در نسل رزق اور روزگار سے محروم ہوجائیں گے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ جناب عمران خان نے اپنی اے ٹی ایمز کو ان کی زمینیں دینے کے لئے سائی پکڑ لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اگلے روز ہی دوڑے دوڑے لاہور آئے ورنہ ایک وزیراعظم کا شیڈول تو بہت مصروف ہوتا ہے۔یہ اسی طرح کمائی کا پروگرام ہے جس طرح پٹرول درآمد کرنے والی کمپنیوں نے مال بنایا اور حکمرانوں کے تعاون سے بنایا، جس طرح شوگر مافیا نے چینی پچپن روپوں سے ایک سو بیس روپے کلو تک پہنچا دی، جس طرح بعض ادویات کی قیمتوں میں پانچ سو فیصد سے ایک ہزار فیصد تک اضافہ کر دیا گیا۔ جس طرح راولپنڈی رنگ روڈ پر اربوں روپے کمانے کا پروگرام تھا یا جس طرح ماضی میں پتریاٹہ کے ارد گرد زمینیں خرید کر نیو مری بنانے کا اعلان کر دیا گیا تھا، یہ لمبی دیہاڑی ہے۔
کسانوں کے مطابق، جس کی سپورٹ لاہور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ بھی کرتا ہے، حکمران ایک لاکھ ایکڑ پر موجود رقبے کو سوا سو برس سے بھی پرانے ایک قانون کے تحت ڈی سی ریٹ پر خریدنااور پھر اسے اپنے پیارے لینڈ مافیا کو دینا چاہتے ہیں۔ مثال اس کی یوں ہے کہ لاہور کے قریب دریا کے پیٹ میں ایک ایکڑ زرخیز زمین کی مارکیٹ پرائس ہی چالیس سے پچاس لاکھ روپے ہے مگر حکمران اسے دو لاکھ روپوں میں ہتھیانا چاہتے ہیں جبکہ جی ٹی روڈ کے قریب ایک ایکڑ تین کروڑ کے لگ بھگ ہے مگر وہ قانون ٹھوک کربارہ سے سترہ لاکھ کے درمیان قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔حکمرانوں کے حواری کہتے ہیں کہ کیا پہلے زرعی زمینوں پر ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاون سمیت دیگر ہاوسنگ سوسائٹیاں نہیں بنیں، وہ غلط دلیل دیتے ہیں، وہ اگر نیا لاہور بنانے کے لئے زمین لینا چاہتے ہیں تو اسی طرح لیں جیسے ڈی ایچ اے، بحریہ یا لیک سٹی وغیرہ والے لیتے ہیں یعنی مارکیٹ پرائس دیں، آپ بزنس کرر ہے ہیں مگر یہاں دھوکہ عوامی مفادکے نام پر دیا جا رہا ہے کہ یہ عوامی مفاد کا منصوبہ ہے۔ بھائی لوگو، کھیت کھلیان ختم کر کے جنگل بنانے کا اعلان کون سا عوامی مفاد ہے۔ تم لوگ رنگ روڈ اور موٹرویز کی مثالیں دیتے ہو تو وہاں ایک خاندان سے زمین لی جاتی ہے اور پھر وہاں سے روزانہ لاکھوں لوگوں کی گزرگاہ بنتی ہے، یہ عوامی مفادکا منصوبہ ہوتا ہے جس میں کوئی ٹیوب ویل لگتا ہے، کوئی سرکاری سکول یا ہسپپتال تک بن سکتا ہے مگرغریبوں کے گھر اور کھیت چھین کر وہاں امیروں کے محل بناناکسی طورعوامی مفاد نہیں، یہ بزنس پراجیکٹ ہے، جو نئے شہر بنانا چاہتے ہیں وہ زمینیں خرید لیں، حکومت اس میں ایجنٹ کیوں بنی ہوئی ہے۔ اس کا جواب سب کو معلوم ہے کہ یہ حکمرانوں کا مفاد کیا ہے اور ان اٹھارہ ماہ کے دوران نئے شہر تو نہیں بنائے جا سکتے مگر اس زرخیز ترین علاقے کی دلالی سے اربوں، کھربوں ضرور بنائے جا سکتے ہیں۔
حضور! آپ تو اربوں ، کھربوں بنا کے چلے جائیں گے مگر دنیا کے آلودہ ترین شہر کی فضاکا کیا بنے گا،اس کے سواکروڑ شہریوں کی صحت اور زندگی کا کیا بنے گا، ان کو ملنے والے دودھ، سبزیوں اور سب سے بڑھ کر آکسیجن کا کیا بنے گا۔ اس کی ٹریفک کا کیا بنے گا۔ جن سے آپ سرکاری قانون لگا کر دو لاکھ میں ایکڑ لیں گے وہ تین ماہ میں صرف آلو کی فصل سے وہاں سے تین لاکھ کما لیتے ہیں، وہ کہاں جائیں گے،وہ اس دو لاکھ کو چاٹیں گے،ان کے بچے کیا احساس پروگرام پر پلیں گے یا ڈاکو بنیں گے۔ آپ لاہور اور لاہور والوںکے ساتھ یہ ظلم کر سکتے۔ کاش لاہور کے پاس تگڑی سیاسی نمائندگی ہوتی، کوئی ایوانوں میں کوئی سٹینڈ لینے والا  ہوتا، کوئی اس ڈاکے کی راہ میں کھڑا ہونے والا ہوتا۔ امید ہے کہ ہماری عدالتیں اس کی راہ روکیں گی جیسے نیو مری کے منصوبے کی روکی گئی جیسے چینی سمیت دیگر مافیاز کو بے نقاب کیا گیا، انہیں نکیل ڈالی گئی ورنہ کسان تو ہیں ہی، وہ اپنے  بزرگوں، بیوی ،بچوں کے ساتھ لینڈ مافیا کے بلڈوزروں کے آگے تو لیٹ ہی سکتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں