موجودہ سیاسی ہلچل کس حد تک نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔ اس کا علم تو اگلے چند روز میں ہو ہی جائے گا ۔ آزاد سیاسی تجزیہ کار تو پہلے ہی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ۔ اگر اب بھی اس سیٹ اپ کو جاری رکھنے کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو یہ مردہ خراب کرنے والی بات ہوگی ۔ لیکن اگر ہٹا بھی دیا جاتا ہے تو پاکستان کے حالات پر اس کا کتنا بہتر اثر پڑ سکتا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے نقطہ نظر سے یہ بہت موزوں سیٹ اپ ہے ۔اس لئے برقرار بھی رکھا جاسکتا ہے۔وزیر اعظم عمران خان ہیں جو بیٹھے بیٹھے گھبرا جاتے ہیں کہ کہیں انہیں نوکری سے نہ نکال دیا جائے ۔ بزدار جیسے وزیر اعلیٰ ہیں کہ جن کو جو حکم دیا جائے عمل درآمد کرکے فوٹو کاپی مشین کی طرح نقل کے ساتھ اصل بھی پیش کردیتے ہیں ۔ اس نظام کو مسلط کرنے والے ہر طرح کے معاملات پر مکمل کنٹرول رکھنے کے ساتھ ساتھ بھرپورطریقے سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔ یوں تو کئی بار ایسا ماحول بنا کہ جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ اس حکومت سے خوش نہیں۔ اس تاثر کو گہرا کرنے کیلئے کبھی حکومت کی اتحادی جماعتوں کو استعمال کیا گیا ، کبھی میڈیا اور عدلیہ میں موجود ہم خیالوں کے ذریعے کھنچائی کرائی گئی ۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم عمران خان ہی نہیں مقتدر حلقوں کے مطیع ان کے وزرا بھی گھبرائے ہوئے نظر آئے ۔ آج کل پھر یہی عالم ہے وزیر اعظم عمران خان نے چند روز قبل دھمکی دی کہ وہ سڑکوں پر آجائیں گے ۔ اب انہوں نے جلسے کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ دلچسپ حقیت یہ ہے کہ عمران خان ملک کے پہلے وزیر اعظم ہیں جو عہدے پر موجود ہوتے ہوئے اپوزیشن کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ان کی یہ گھبراہٹ کوئی ایسی بے جا بھی نہیں کیونکہ حیرت انگیز طور پر وہ واقعہ رونما ہوگیا ہے کہ جس کے بارے حکومتی حلقوں کو یقین تھا کہ ایسا ہوا بھی تو جلد نہیں ہوگا ۔ آصف زرداری اور بلاول کی شہباز شریف کی رہائش گاہ آمد اور وہاں مریم نواز کا موجود ہونا ہر حوالے سے معنی خیز ہے ۔ وہاں جو بات چیت ہوئی اسی کی روشنی میں آصف زرداری اگلے روز چودھری برادران سے ملاقات کیلئے پہنچ گئے ۔ اسی دوران بلوچستان عوامی پارٹی ( باپ ) نے اپنے اجلاس میں وفاقی حکومت کو آنکھیں دکھائیں ۔ وفاقی حکومت کی ایک اور اتحادی جماعت ایم کیو ایم کا وفد شہباز شریف سے ملنے پہنچ گیا ۔ جی ڈی اے کے بارے میں پہلے ہی کہا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت سے خوش نہیں ۔ ویسے خوش تو پی ٹی آئی کے اپنے ارکان اسمبلی بھی نہیں ۔ لیکن ان سب کی خوشی غمی کی حیثیت ہی کیا ہے ؟ سب نے اشاروں پر چلنا ہے ۔ چونکہ اب تک کوئی واضح اعلان سامنے نہیں آیا اس لئے لگتا تو یہی ہے کہ حکومتی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے ارکان کو ’’ دیکھو اور اشارے کا انتظار کرو ‘‘ کا حکم دیا گیا ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا پھر سے ایک ایجنڈے پر اکٹھا ہوجانا بہت اہم پیش رفت ہے ۔اب دیکھنا ہوگا کہ پی ڈی ایم خصوصاً مولانا فضل الرحمن کو کیسے اعتماد میں لیا جاتا ہے اور ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے ۔ یہ تو طے ہے کہ کسی احتجاجی تحریک کیلئے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مل بھی جائیں تو جے یو آئی ف کے بغیر ان کی وہی حیثیت ہوگی جو انجن کے بغیر مال گاڑی کی ہوتی ہے ۔ ایک پیج کے اس ہائبرڈ نظام کو اصل چیلنج اسی وقت ہوا تھا جب پی ڈی ایم بنی تھی ۔ اس بڑے اپوزیشن اتحاد کا بالکل واضح مؤقف تھا کہ عمران خان سے کوئی واسطہ ہی نہیں معاملات انہیں لانے والوں کو طے کرنا ہونگے ۔ اس سے پہلے یہ اپوزیشن اتحاد عوامی طاقت کے بل بوتے پر ناقابل برداشت دباو ڈالنے میں کامیاب ہوتا ، پیپلز پارٹی نہ صرف خود نکل گئی بلکہ اپنے ساتھ اے این پی کو بھی لے اڑی۔ پی ڈی ایم ، زرداری کی اس ضرب کاری سے بچ تو گیا مگر تحریک کے ٹیمپو کو شدید نقصان
پہنچا۔بہر حال اس مشق سے اسٹیبلشمنٹ کو یہ پتہ چل گیا کہ ساری اپوزیشن کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا مناسب نہیں ہوگا ۔ مسلم لیگ ن تو اب کافی حد تک نرم پڑ چکی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کا ذکر کرنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔ صرف وزیر اعظم عمران خان کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کے موقف میں خاص کمی نہیں آئی ۔ وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو مسلط کرکے عالمی سازش پر عمل کیا گیا جس کا مقصد پاکستان کو معاشی ، دفاعی اور معاشرتی طور پر مفلوج بنانا ہے ۔ وہ مسلسل یہ مطالبہ بھی کررہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی پشت پناہی کرنے کا سلسلہ ختم کرے ۔ بالواسطہ طور پر سارا الزام عمران خان کو لانے والوں پر ہی جارہا ہے ۔ اسی بات سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اب اور آئندہ حتمی کنڑول اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہی ہوگا تو شہباز شریف یا آصف زرداری حکومت میں آکر کیا کرلیں گے ۔ کچھ نہ کرنے والے عمران خان نہیں چل پارہے تو سیاسی جڑیں رکھنے والی جماعتیں اقتدار میں آکر خود کو کس طرح سے محفوظ رکھ سکیں گی ۔ سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے اعزاز میں الوادعی تقریب میں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسی ایشن کے نمائندوں نے کھل کر کہا کہ پچھلے چند سالوں سے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر میرٹ سے ہٹ کر سفارش کی بنیاد پرکئے جا رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ طاقتور ہاتھ جس طرح سے چاہیں گے عدلیہ کو حکومت اور اپنے لئے دوسرے ناپسندیدہ فریقوں کے خلاف استعمال کریں گے ۔ اسی طرح سے میڈیا بھی حصار میں ہے ۔ نیب اس طرح کے دیگر سرکاری ادارے اپنے حکام کی بجائے کسی اور کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں ۔ نواز شریف اور آصف زرداری حکومتوں میں رہ کر حکومت نہ کرسکے تو آئندہ حکومت میں آکر کون سا تیر مار لیں گے ۔ آج ملک عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں جاچکاہے ، سٹیٹ بنک آف پاکستان خود مختار بنا دیا گیا ، قرضوں کا بوجھ کمر توڑ رہا ہے ۔ کرپشن اور بیڈ گورننس کے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں ۔ سرحدوں پر حالت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر سرنڈر کئے جانے کے باوجود بھارت ہماری بات سننے پر تیار نہیں ۔ بلوچستان میں دہشت گردی ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ حملہ آور ایران سے آئے ۔ افغانستان سے دوستی کی صدائیں آنے کی بجائے گولیوں کی بوچھاڑ آرہی ہے ۔ چین کا رویہ سرد ہوچکا ، امریکا کے متعلق تو کچھ کہنے کی ہی ضرورت نہیں ۔ دوست عرب ممالک بھی اپنی ترجیحات بدل رہے ہیں تو ایسے میں یہ سوال تو بنتا ہے کہ عمران خان کو ہٹا کر خود آنے کی کوشش کرنا کچھ ایسا بھی خوشگوار نہیں ۔اور اگر حکومت مل بھی جائے تو یہ گناہ بے لذت سے زیادہ اور کیا ہوگا۔ حالیہ سیاسی گرما گرمی کا تعلق اگر ’’ توسیع ‘‘ سے ہے تو ایسا ہونے سے کون روک سکتا ہے مگر جو اس حوالے سے ماحول بنانے کیلئے استعمال ہورہے ہیں ان کی سوچ پر حیرانی ہے۔ آخر انہیں کیا حاصل ہوگا ۔ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بات بالکل کھل کر سامنے آگئی کہ وہ بھی توسیع چاہتے تھے ۔ بطور آرمی چیف انہیں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے سوا دیگر سٹیک ہولڈروں کی حمایت بھی حاصل تھی ۔ نواز شریف نے راحیل شریف کو توسیع دینے سے انکار کردیا مگر بعد میں خود بھی کرسی گنوا بیٹھے بلکہ جیل جا کر بیماری اور اذیت سے مرتے مرتے بچے ۔ اگر جنرل راحیل شریف کو توسیع دے دی جاتی شاید تب بھی ان کی بچت نہ ہوتی ۔ نواز شریف کو عدلیہ کے ذریعے ہٹانے کا منصوبہ 2014 میں ہی بنا لیا گیا تھا ۔ دھرنوں کے دوران عمران خان سے سارا منصوبہ سننے کے بعد جاوید ہاشمی نے تمام تفصیلات ایک پریس کانفرنس کے ذریعے پوری دنیا کے سامنے رکھ دی تھیں۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ بالکل ویسا ہی ہوا جیسا پہلے سے طے کرلیا گیا ۔ سو یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ کسی کے آنے جانے یا برقرار رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جس مائینڈ سیٹ سے سامنا ہے وہ انفرادی نہیں اجتماعی ہے۔ روایتی سیاست طور طریقوں کے ساتھ مناسب تو کیا آبرو مندانہ ڈیل بھی نہیں کی جاسکتی۔اپوزیشن جماعتوں میں موجود ہمارے سیاستدان اگر واقعی عوام کے نمائندے ہیں تو سٹریٹ پاور کے ذریعے کچھ کرکے دکھائیں ۔ کسی کے اشارے پر نام نہاد تحریک اعتماد لانے سے کہیں بہتر ہوگا کہ اسی ہائبرڈ نظام کو چلنے دیں۔ عمران خان کو یہ کریڈٹ تو جاتا ہے کہ جو کام مولانا مودودی ، مفتی محمود ، مولانا شاہ احمد نورانی قد آور شخصیات ، ذوالفقار علی بھٹو ، بینظیر بھٹو، نواز شریف جیسے بڑے لیڈر نہ کر سکے اسے ممکن بنا دیا۔ آج ہر پاکستانی کو پتہ چل چکا کہ اس روایتی نظام کے اندر ان کے مسائل حل کرنے کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ۔ آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے اس کے بارے میں معروف صنعتکار میاں منشا نے پچھلے دنوں ایک تقریب میں بہت کھل کر باتیں کیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ہمیں سرکاری اداروں سے افرادی قوت کو کم کرنا ہوگا ، کرپشن کرپشن کا راگ الاپنے کی بجائے اپنی نالائقیاں ختم کرنا ہونگی۔ پیسے کا زیادہ تر استعمال سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر کیلئے کرنا ہوگا۔ اپنے ہمسایہ ممالک سے صلح کرنی ہوگی۔ نیب جیسے ادارے بند کرکے عدالتوں میں لوگوں کی تذلیل کا سلسلہ روکنا ہوگا۔ سرکاری کارپوریشنوں اور توانائی کے شعبے کی نجکاری کرنا ہوگی۔ ایئر پورٹس بھی پرائیویٹائز کرنا ہونگے۔ سکیورٹی کے نام پوش علاقوں میں بنائے گئے نو گو ایریاز ختم کرنا ہونگے ۔ میاں منشا کا کہنا تھا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے جیسے اب ہیں تو ملکی ترقی کا خواب اگلے سو سال تک بھی پورا نہیں ہو سکتا۔