بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ اپوزیشن جماعتیں یکایک حکومت کی تبدیلی کی باتیں کرنے لگی ہے اور ایسوں ایسوں سے مدد مانگی جا رہی ہے جو ایک دوسرے کے سخت مخالف رہے ہیں۔ قوم اگر چہ اس حکومت سے اتنی خوش نہیں ہے بلکہ گونا گوں مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے لیکن اس کو معلوم ہے کہ جو لوگ حکومت میں آ سکتے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس کا نجات دہندہ نہیں ہے۔ ان دنوں یہی لوگ اور ان کے ساتھی ایک بار پھر اپنی منڈلی لے کر اسٹیج پر دھما چوکڑی مچا رہے ہیں لیکن بہت جلد ان کے درمیان اقتدار کی جنگ برپا ہو گی کیونکہ اقتدار کے لئے یہ ہمیشہ لڑتے بھڑتے آ رہے ہیں البتہ اس بار ان سے کچھ غلطی ہو رہی ہے اور یہ وقت سازگار نہیں ہے۔ دوسرا وزیراعظم عمران خان اگر اپنی مدتِ اقتدار پوری کرتے ہیں تو یہ تاریخی واقعہ ہو گا۔ یہ جمہوریت کے لئے ایک نیک شگون ہو گا اس کا فائدہ تمام ہی قوتوں کو ہو گا جمہوری قدریں مضبوط ہوں گی۔ بالفرض عوام موجودہ حکومت سے خوش نہیں ہے تو وہ خود ہی اسے تبدیل کر دیں گے۔ پھر ان کی باری ہو گی جو کمیاں کوتاہیاں موجودہ حکومت کے دور میں رہی ہیں ان پر قابو پا کر قوم کو مشکلات کے بھنور سے نکال کر ان کی ہمدردیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ سیاست دان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر تماشہ نہ بنیں، دوسرے تو کہیں آپس میں لڑتے نہیں ہیں، سیاستدانوں کو آپس میں لڑایا جاتا ہے، ایسی صورتحال سے بچنے کے لئے ضابطہ اخلاق وضع کرنا چاہئے۔ اپوزیشن کو تنقید کا حق ضرور ہے، آج پی ٹی آئی ایوانِ اقتدار میں ہے کل کوئی اور ہو گا، ایسے کام کرنے چاہئیں کہ تاریخ انہیں یاد رکھے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک کی 73 سالہ تاریخ میں غیر جمہوری قوتیں اقتدار پر قابض ہوتی رہی ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خود سیاسی پارٹیاں اور سیاست دان ہی سیاسی عمل کا گلا گھونٹنے کے لئے بازو بنتے رہے ہیں۔ اگر اس سوال کا جواب تلاش کر لیا جائے کہ ایسا کیوںہوتا رہا ہے تو ملک میں جمہوریت کے مستقبل کو تابناک بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس کی بنیادی وجہ سیاست دانوں میں ادراک اور کمٹمنٹ کی کمی اور کسی نظریہ کے ساتھ ٹھوس وابستگی نہ ہونا ہے۔ در اصل اپوزیشن کی جانب سے کسی منتخب حکومت کی ٹانگیں کھینچنے کا مطلب اس مینڈیٹ کو پامال کرنے کے
مترادف ہے جو عوام نے برسرِ اقتدار پارٹی کو دے رکھا ہوتا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کا اپنا ایجنڈا اور اپنا منشور ہوتا ہے اس لئے ان کے درمیان اختلاف کا ہونا یا پید ا ہو جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن یہ اختلافات نظریاتی ہونے چاہئیں اور ذاتی یا انفرادی نہیں ہونے چاہئیں۔ ہمارے یہاں نظریاتی کی بجائے ذاتی اختلافات کو بنیاد بنا کر حکومت اور اپوزیشن کا کردار ادا کیا جاتا رہا اور اس کے تحت اقدامات کرتے ہوئے کبھی نہیں سوچا گیا کہ اس سے ملک، یہاں جاری سیاسی عمل، جمہوری نظام، منتخب سیٹ اپ اور سب سے بڑھ کر اس ملک کے عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ان سب کے حوالوں سے جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ اس سوال کا جواب سیاسی حلقوں کو خود تلاش کرنا چاہئے کہ ہر بار سیاست دانوں کو ہی کیوں آپس میں لڑایا جاتا ہے اور کیوں سیاست دان ایسے معاملات میں آلۂ کار بن جاتے ہیں ۔ تجزیہ اور تجربہ بتاتا ہے سیاست دان مل بیٹھیں تو بہت سے مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں اگر مل بیٹھ کر ملکی مسائل کے حل کی راہ نکالنے کا راستہ اپنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل کیا جا سکے۔ سیاسی حلقے اگر اپنی نظریاتی وابستگیوں کو مضبوط اور مستحکم بنا لیں تو ظاہر ہے انہیں آپس میں لڑانا بھی ممکن نہیں رہے گا۔
اپوزیشن اور برسرِ اقتدار جماعت پی ٹی آئی کے درمیان بڑھتی محاذ آرائی اور بالخصوص حکومت کو گرانے کی کوشش اور غیر مستحکم کرنے کا عمل کسی طور جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہے۔ بلکہ خود اپوزیشن کے مفاد میں بھی ہے کہ حکومت کو پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے اور ملک کو آئے روز کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور مہم جو عناصر کی گرفت سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس سیاسی محاذ آرائی سے عوام میں زبردست مایوسی پھیل رہی ہے اور ملک کی دوسری ڈیفنس لائن یعنی اندرونی محاذ پر ایک بار پھر سے دہشت گردی کی لہر اٹھنا شروع ہو گئی ہے خاص طور پر سیکورٹی اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس طرح پنجگور اور نوشکی میں دہشت گردوں نے جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیار استعمال کئے ہیں اس نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ افغانستان کی بدلتی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کو جو خطرات لاحق ہیں انہیں پیشِ نظر رکھنا بھی تمام سیاسی و مذہبی قوتوں اور عوام کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کا تقاضا ہے کہ مشاورت کے لئے تمام سیاسی قائدین مل بیٹھیں، ملک و قوم کو درپیش مسائل و مشکلات کا جائزہ لیں اور باہمی اختلافات کو افہام و تفہیم کی بنیاد پر حل کرنے کے لئے ضد و ہٹ دھرمی کی بجائے اپنے اپنے رویے میں نرمی اور لچک کا مظاہرہ کریں۔ اس کے لئے ماضی کے تلخ تجربات کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے اور اس حقیقت کا بھی صحیح معنوں میں ادراک کیا جائے کہ تصادم اور محاذ آرائی کسی مسئلے کا مستقل اور پائیدار حل نہیں بلکہ مفاہمت و مصالحت اور وسیع تر مشاورت کی بنیاد پر ہی مسائل کا مستقل اور قابلِ قبول حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
عوام نے حکومت سے جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی قوتیں اور حکمران حقائق کا ادراک کریں، آپس میں مل بیٹھیں اور اپنے اپنے رویے میں نرمی اور لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مسائل کا حل تلاش کر کے مفاہمت کا راستہ اختیار کریں تا کہ ان سے وابستہ عوام کی توقعات پوری ہو سکیں۔ جمہوری نظام کی بقاء میں ہی ساری سیاسی جماعتوں کی بقاء مضمر ہے، اس لئے ضروری ہے کہ قومی معاملات پر مثبت اور صحت مندانہ اندازِ نظر سے مشاورت ہونی چاہئے۔ تصادم اور محاذ آرائی سے اجتناب کی بلا شبہ اچھی روایت قائم ہونی چاہئے۔ اس المناک حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سیاسی بحران کی شدت سے ملکی معیشت کی مزید بدحالی اور سیاسی نظام کے مستقبل اور جمہوری عمل کی بقاء اور تسلسل کے لئے خطرناک واہمے اور اندیشے ضرور پیدا ہوں گے تاہم یہ بھی قومی امتحان اور سیاست دانوں کی آزمائش کا نازک ترین دورانیہ ہے جس میں بے یقینی اور بے سمتی کی دھند میں گھری قوم کی نظریں ان پر مرکوز ہیں، عوام کے لب پر تمام سیاسی رہنماؤں سے یہی سوال ہے کہ ان کی جد و جہد کا بنیادی مقصد اگر جمہوریت کی کشتی کو ساحل مراد تک لے جانے کی اجتماعی عوام دوست کوششوں میں صرف حکومت پر دباؤ بڑھانا ہے، نظام کو گرانا مقصود نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے نقطہ نظر میں اختلاف جمہوریت کا حصہ ہے لیکن اس معاملے کو آئینی حدود میں رکھا جایا جانا چاہئے۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کی کارکردگی پر اعتراضات درست مگر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہئے جس سے ملک کا نظام درہم برہم ہونے کا اندیشہ ہو۔ کوشش یہی ہونی چاہئے حکومت اپنی مدت پوری کرے کیونکہ ملکی سیاست میں ایک تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے۔