بادشاہ کا حکم ہے عوام سے رابطہ کیا جائے

08:20 AM, 11 Feb, 2022

نیوویب ڈیسک

یوں دکھائی دے رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان بادشاہ بن چکے ہیں انھوںنے حکم دیا ہے کہ عوامی رابطہ مہم کو بڑھایا جائے۔اس بات کو سُن کر مجھے ایک بات یاد آئی تو میں بے تحاشہ محظوظ ہوئی ہو سکتا ہے کہ ویسی ملتی جُلتی بات بہت سے کے گھروں میں وقوع پزیر ہوتی بھی ہوں۔کسی بھی گھر میں جب نئی نویلی بہو آتی ہے تو پہلے پہل تو بہت سی چیزیں،گھر کے اصول اور بہت سے قریبی رشتے داروں کے چہروں سے وہ نا آشنا ہوتی ہے۔پہلے پہل جب بہو سے کسی کام میں خامی ہو جاتی ہے تو وہ یہ بات کہہ کر اپنی خامیوں پہ پردہ ڈال دیتی ہے کہ میں ابھی اس گھر میں نئی ہوں اس لیے انجانے میں پتہ نہ چل سکا۔پھر6 ماہ گزر جاتے ہیں باوجود اس کے اگر پھر سے کوئی کام غلط ہو جاتا ہے تو پھر اسی بات کو کہہ کر بات ختم ہو جاتی ہے کہ چلیں ابھی اس گھر میں وقت کم گزرا ہے جب رچ جائے گی تو ایسا نہیں ہو گا۔پھر اگر ایک سال گزر جانے کے بعد بھی اگر کوئی غلطی سر زد ہو جاتی ہے تو بہو ایک میٹھی سی مسکراہٹ سے اور ہولے سے یہ بات کہہ دیتی ہے کہ ابھی اس گھر میں آئے مجھے دن ہی کتنے ہوئے ہیں آئندہ خیال رکھوں گی۔
وزیر اعظم عمران خان اور اُس کی کابینہ کا بھی نئی نویلی بہو جیسا حال ہے کہ جیسے ان کی حکومت کو چار سال ہونے کو ہیں اور وہ اس نئی نویلی دلہن کی طرح ہر چیز کا الزام اپوزیشن پرڈال دیتے ہیںدن اور سال گزر جانے کے بعد یاد آتا ہے کہ مجھے ساس سسر کے کمرے میں بھی بیٹھنا ہے اور اُنہیں بھی وقت دینا ہے۔ ٹھیک اُسی طرح وزیر اعظم عمران خان کا بھی دوراقتدارختم ہونے کے قریب ہے آئی ایم ایف کے رابطوں سے فرصت ملی تو اُنہیں یاد آیا 
کہ عوام سے بھی رابطہ کیا جائے۔  عوام تو ایک طرف پارٹی کے وہ اہم کارکنان جوکبھی کسی دور میں کنویشن منعقد کرتے تھے اُن بیچاروں کو حکومتی عہدے تو ایک طرف اُن کے تو روابط ایم پی ایز  یا  ایم این ایز کے ساتھ بھی ممکن نہیں تھے۔اور اب عمران خان کو محسوس ہوا کہ ہمارے کارکنان پارٹی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔
میں وزیر اعظم عمران خان کو اپنے کالم کے ذریعے بتانا چاہتی ہوں کہ ملکی اثاثوں کے ساتھ ساتھ آپ کا تو پارٹی کا اثاثہ بھی لُٹ چُکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان قسمت کے دھنی تھے کہ جن کے پاس جان نثار کرنے والے کارکنان اور مخلص مشورہ دینے والے علیم خان ، جہانگیر ترین،ایڈمرل جاوید اقبال ،وجہیہ الدین اور بہت سے دوست ہوتے تھے لیکن عمران خان اپنے اقتدار کے نشے میںان کو گنوا چُکے ہیںاور آنے والے وقت میں وہ ان کے ساتھ نہیں ہونگے ان کے علاوہ اور بہت سے مخلص ساتھی بھی اقتدار کی نظر کر چُکے ہیں۔
اب اگر ہم بات کریں اتحادی جماعتوں کی تو وہ بھی اپنے اپنے مفاد کیلئے ان کے ساتھ ہیں۔مگر افسوس!میں اپنے قارئین اور عوام کو اپنے کالم سے بتانا چاہتی ہوں کہ آج وہ ماضی کے اختلافات کو بھول کے سر جوڑ بیٹھے ہیں کبھی ملکی یا عوامی مسائل یا اُن کے فائدے کے لیے کبھی بھی اپنی آپسی رنجشیں بھول کر یوں سر جوڑ کر نہیں بیٹھے۔میں چند روز پہلے ہی کی بات کروں گی جب اسی اپوزیشن نے زمین آسمان ایک کر رکھا تھا کہ ہم آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے ملکی سالمیت کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے ہم کسی صورت بل پاس نہیں ہونے دیں گے۔مگر سینٹ میں اسی پی پی پی نے ہی راہ دے دی یوسف رضا گیلانی نے نہ جا کر حکومت کا کام آسان کر دیا اور ایک ووٹ سے بل پاس ہو گیا۔
اب میری نظر میں یہ کام اتنی پلاننگ سے کیا گیا ہے کہ کام بھی ہوجائے اور بات بھی رہ جائے اگر اسی اپوزیشن کو درد ہوتا ملکی سا لمیت کا تو یہ کبھی سینٹ بل پاس نہ ہونے دیتے۔ماضی میں کونسے سخت الفاظ ایسے نہیں جو ppp اور ن لیگ نے نہیں ایک دوسرے کو کہے اب عوام یاد رکھے یہ عوام کے لیے اکٹھے نہیںہو ئے بلکہ اس کا کریڈٹ بھی عمران خان کو جاتا ہے۔بلوچستان کی صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں لیکن اس کی آپ کو کوئی فکر نہیں اس پر بات میں پھر کروں گی۔
حکومت کے پی کے کی ناکامی کے بعد اب پنجاب کی موجودہ صورتحال سے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔میں نے ایک پروگرام میں تب یہ بات کہی تھی جب وزیراعظم عمران خان نے ٹکٹس تقسیم کیے اور الیکٹیبلز کو اہمیت دی تب میں نے کہا تھا آج پی ٹی آئی کی وہی ویو چلی جو ایک بار بھٹو کے لیے چلی تھی اُس کو نیشنلزم لے ڈوبا ا ور عمران خان کو مہنگائی، پیرا شوٹر اورغیرمنتخب لوگ جو وزیراعظم کے اردگرد موجود ہیں لے  ڈوبے ہیں۔ اب پھر سے ورکرز کا پاور شو کرنے کا وزیراعظم عمران خان نے حکم دیا ہے وہ شاید مینار پاکستان والا ہی پاور شو دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب وزیر اعظم خوابوں کی دنیا سے باہر نکلئے کیونکہ اب قوم پہلے کی طرح آپ کی ایک کال پہ نہیں آئے گی اب ایک مارکی ہی آپ کی کال سے بھر جائے تو کافی ہے کیونکہ قوم مہنگائی اور بے روزگاری سے اسقدر تنگ آچکی ہے کہ اب آپ اپنا اعتماد کھو چُکے ہیں ۔ آپ کے نمائندے جب عوام کے پاس جاتے ہیں تو وہ ایک ہی سوال کرتے ہیں مہنگائی کب قابو میں آ ئی گی؟ ہمارے بچوں کو نوکری کب ملے گی۔ بادشاہ سلامت یہ 2011نہیں یہ2022-23ہے ۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو ایک بات عرض کرنا چاہتی ہوں مجھے لگتا ہے آئندہ الیکشن میں آپ کو ایک ٹکٹ کے ساتھ ایک ٹکٹ فری دینا پڑے گی۔

مزیدخبریں