مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا ، وہ بنیادی ستون ہیں جن پر کسی مملکت کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ یہ بنیادی ستون ریاست کو بادِ مخالف کے تھپیڑوں سے بچانے میں ہمہ وقت و ہمہ تن مصروفِ کار رہتے ہیں۔ اگر کسی ایک ستون میں بھی ضعف پیدا ہوجائے تو یہ عمارت متزلزل ہو جاتی ہے۔ جہاں چاروں ستون ہی ضعف کی انتہاؤں کو چھو رہے ہوں وہاں مملکت کا قائم رہنا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ پاکستان کی تشکیل اگر کسی معجزے سے کم نہیں تو اِس کا قائم رہنا بھی معجزہ ہی ہے کیونکہ حالت یہ کہ اِس کے کسی بھی ستون کی کارکردگی لائقِ تحسین نہیں۔ یہ وہ مملکتِ خُداداد ہے جہاں مایوسیوں کے گھٹاتوپ اندھیروں میں قوم کی حالت اِس نہج پر آن پہنچی ہے کہ
منصورِ حقیقت کو سرِدار نہ دیکھا
اچھا ہے کہ آج کا اخبار نہ دیکھا
مقننہ وہ مجلس ہوتی ہے جو قوانین بناتی، اِس میں ترمیم کرتی یا قانون کو ختم کر سکتی ہے۔ پارلیمانی نظامِ حکومت میں پارلیمنٹ ہی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں قانون سازی کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں 90 فیصد سے زائد پارلیمنٹیرینز نے تو شاید آئین کی کتاب کو کھول کر بھی نہیں دیکھا ہوگا۔ یہاں آپ کو ایسے کئی انگوٹھا چھاپ اور لوٹے مل جائیں گے جو اپنی دولت اور ذات برادری کے بَل پر پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں۔ ایسے پارلیمنٹیرینز کو ’’الیکٹیبلز‘‘ یا با الفاظِ دیگر ’’جیتنے والے گھوڑے‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور ان کی ہر سیاسی جماعت میں بہت مانگ ہے۔ کروڑوں روپے صرف کرکے جب یہ پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں تو اِن کے مدِنظر ملک وقوم نہیں، اپنی ذات ہوتی ہے، صرف اپنی ذات۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن کی کہانیاں عام ہیں جن سے مبرّا کوئی نہیں۔ استثنائی صورتیں بہرحال موجود لیکن ہر سیاسی جماعت کے سربراہ سے لے کرنیچے تک کرپشن کی داستانیں زباں زَدِعام۔
ریاست کا دوسرا بنیادی ستون عدلیہ۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پولیس اور عدلیہ پاکستان کے کرپٹ ترین ادارے۔ ارضِ وطن میں عدل کی تاریخ کبھی لائقِ تحسین نہیں رہی۔ 1954ء سے اب تک ہماری عدلیہ ’’نظریۂ ضرورت کے گھنے پیڑ کی چھاؤں میں پَل بڑھ کے جوان ہوئی۔ پاکستان میں نظریۂ ضرورت کے خالق جسٹس منیر نے 1954ء میں اِسی نظریے کو بروئے کار لا کرگورنر جنرل غلام محمد کے پارلیمنٹ کی تحلیل کے حق کو جائز قرار دیا۔ ایوب خاں کا مارشل لاء ہو یا ضیاء الحق کا، سبھی اِسی نظریۂ ضرورت کی پیداوار ہیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے میاں نوازشریف کی آئینی حکومت کا تختہ اُلٹا تو اِسی نظریۂ ضرورت کی تلوار نے جمہوریت کا گلا کاٹا اور عدالت نے آمر پرویز مشرف کو فوج کی مداخلت کے دن یعنی 12 اکتوبر 1999ء سے لے کر 3 سال کا عرصہ دیا تاکہ وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکے۔
عدلیہ بحالی تحریک کے بعد خیال تو یہی تھا کہ نظریۂ ضرورت ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا لیکن ’’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا’’۔ 2008ء سے 2018ء تک کے عشرے میں اِسی عدلیہ نے پیپلزپارٹی کے منتخب وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیجا اور نوازلیگ کے 3 بار کے منتخب
وزیرِاعظم میاں نوازشریف کو تا حیات نااہل قرار دیا۔ میاں نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ کسی لطیفے سے کم نہیں۔ اُنہیں جولائی 2017ء میں اِس بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا کہ اُنہوں نے اپنے بیٹے سے 10 ہزار درہم ماہانہ تنخواہ نہیں لی لیکن لے تو سکتے تھے۔ اِس لیے تنخواہ نہ لینے کا ڈیکلیریشن ضروری تھا۔ اِس بنیاد پر آرٹیکل 62-1F کے تحت اُنہیں تاحیات نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب میاں نوازشریف نے تنخواہ کا ایک پیسہ بھی وصول نہیں کیا تو پھر ڈیکلیریشن کیسی؟۔
4 اکتوبر 2022ء کو معزز سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کرتے ہوئے محترم چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تاحیات نااہلی کو کالا قانون قرار دیا۔ بعد ازاں فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کو موجودہ قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہونے تک محدود کر دیا گیا۔ انتہائی محترم چیف جسٹس صاحب کا تاحیات نااہلی کو کالا قانون قرار دینا سبھی کو حیران کر گیا۔ کیونکہ 2018ء میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رُکنی بنچ تشکیل دیا گیا جس میں آرٹیکل 62-1F کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین مقصود تھا۔ اِس بنچ کے فیصلے کے مطابق چونکہ آرٹیکل 62-1F میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا اِس لیے نااہلی تاحیات ہوگی۔ محترم جسٹس عمرعطا بندیال اُس 5 رُکنی بنچ کا حصّہ تھے اور اُنہوں نے ہی یہ فیصلہ تحریر کیا تھا۔ اِس کے علاوہ جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی کے کیس میں بھی محترم جسٹس عمر عطا بندیال 3 رکنی بنچ کا حصّہ تھے لیکن اُس وقت کسی کو یاد نہیں رہا کہ تاحیات نااہلی ظالمانہ قانون ہے۔ آرٹیکل 63-A کے صدارتی ریفرنس کی تشریح میں بھی مختلف اوقات میں 2 متضاد فیصلے سامنے آئے۔ اِس کے علاوہ بھی ہماری معزز عدلیہ کے کئی متنازع فیصلے سامنے آتے رہتے ہیںجن کی اِس مختصر کالم میں گنجائش نہیں۔ اِس لیے آگے بڑھتے ہیں۔
ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت اور انتظام وانصرام بری، بحری اور فضائی افواج کے ذمے ہوتا ہے۔ 65,71ء کی جنگوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے جری جوانوں کی لازوال قربانیوں سے مفر ممکن نہیں۔ قدرتی آفات کی صورت میں بھی پاک فوج امدادی کارروائیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتی ہے لیکن اِس میں بھی کوئی شک نہیںکہ قیامِ پاکستان سے اب تک آدھا وقت براہِ راست مارشل لاؤں کی زَد میں رہا اور باقی آدھے وقت میں جمہوری حکومتیں تو تھیں لیکن طاقت کا محورومرکز ہمیشہ فوج ہی رہی حالانکہ آئینِ پاکستان کی رو سے فوج سیاست میں حصّہ نہیں لے سکتی۔ 2018ء کے عام انتخابات کے بعد پارلیمنٹ کے پہلے ہی اجلاس میں بلاول زرداری نے عمران خاں کو ’’سلیکٹڈ وزیرِاعظم‘‘ کہہ کر مخاطب کیااور پھر سلیکٹو کی گونج فوج اور عمران خاں کا پیچھا کرتی رہی۔ بالآخر 2022ء کے اوائل میں فوج نے اعلان کر دیا کی وہ نیوٹرل ہے اور اپنی آئینی ذمہ داریوں تک ہی محدود رہے گی۔ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے متعدد بار کہا کہ سیاست میں حصّہ نہ لینے کا فوج کا متفقہ فیصلہ ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو کیونکہ جمہوری حکومتوں کی مضبوطی کے لیے یہ بہت ضروری ہے ۔۔۔۔۔ بیوروکریسی بھی انتظامیہ ہی کا حصّہ ہے جس کی ذمہ داری امورِ مملکت کو حکومتی پالیسیوں کے مطابق چلانا ہے ۔اِس لحاظ سے بیوروکریسی کا کردار اہم ہے کیونکہ عوامی خوشحالی اور نظم ونسق قائم رکھنا اِسی کی ذمہ داری ہے۔ یہاں مگر یہ عالم کہ ہر حکمران بیوروکریسی کو مَن مانیوں کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایسی صورت میں قوانین کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے اور کرپشن کی راہیں کھُل جاتی ہیں۔ پولیس بھی انتظامیہ کا جزوِلاینفک ہے جس کے بارے میں بین الاقوامی سروے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں کرپشن میں پہلے نمبر پر پولیس کامحکمہ ہے۔ جہاں یہ صورتِ حال ہو وہاں امن وامان کے خواب دیکھنا احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ہے۔
ریاست کا چوتھا ستون میڈیا ہے۔ بلاشبہ اگر صحافت میں کثافت کی آمیزش نہ ہو تو یہ سیادت وسعادت ہے۔ یہاں مگر معاملہ یکسر مختلف کہ اہلِ صحافت نے اپنے اپنے سیاسی گروہ بنا رکھے ہیںاور ہر لکھاری وتجزیہ نگار ہمہ وقت اپنے ممدوح کی تعریف وتوصیف میں رطب اللساں۔ بڑے بڑے سیٹھوں نے اپنے اپنے نیوزچینلز کھول رکھے ہیںجہاں ہر اینکر سے ریٹنگ کا سوال کیا جاتا ہے۔ اِسی لیے ٹاک شوز میں خبر کم اور گھڑی گھڑائی داستانیں زیادہ ہوتی ہیں۔ میڈیا کا کام تو اصلاح ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ کہ ہمارے ہاں اِسی میڈیا کی بدولت اصلاح کے بجائے اُلجھاؤ کی کیفیت طاری رہتی ہے اور عوام تک درست خبر پہنچ ہی نہیں پاتی۔