اس وقت پاکستان میں اقتصادی اور سیاسی بحران تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کیلئے اولین ترجیح بالترتیب بقائے اقتدار اور حصول اقتدار تک محدود ہے معیشت ڈوب رہی ہے اور دیوالیہ ہونے کی آوازوں کا شور دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جبکہ زر مبادلہ کے ذخائر 7 ارب ڈالر کی سطح سے بھی نیچے آچکے ہیں جو بمشکل ایک ماہ کی امپورٹ کیلئے کافی ہیں لیکن پی ڈی ایم حکومت اور تحریک انصاف اپوزیشن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔
پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام کیلئے گزشتہ سال نومبر میں سعودی عرب نے دوستانہ خیر سگالی کے طور پر 3 بلین ڈالر دیئے تھے جن کو اس نے واپس کرنا تھا مگر موجودہ حکومت نے منت سماجت کر کے سعودی عرب کو مزید ایک سال کیلئے آمادہ کر لیا ہے کہ وہ یہ رقم واپس نہ لے اور اس کے ساتھ ساتھ 1.2 بلین ڈالر کا ادھار تیل بھی دے جس پر سعودی عرب نے آمادگی ظاہر کردی ہے یہ اچھی خبر ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کے ہم معاشی خطرات سے باہر آگئے ہیں۔ جب تک آئی ایم ایف کی طرف سے فارن فنڈ فیسیلٹی (FFF) پروگرام کے 9 ویں Revie کی مد میں 1.3 بلین ڈالر جو نومبر میں ملنا تھے مگر عدم اتفاق رائے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئے وہ جب تک نہیں ملتے پاکستان کی معیشت کا پہیہ چلنا ممکن نہیں۔
یاد رہے کہ آئی ایم ایف سے عمران خان کی حکومت نے 2019ء میں 6 بلین ڈالر قرضہ کا پروگرام طے کیا مگر 3 بلین کی ادائیگی کے بعد آئی ایم ایف نے باقی رقم دینے سے انکار کر دیا کیونکہ حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی تھی۔ اس کے بعد تحریک انصاف حکومت کے خاتمے پر ایک قسط مفتاح اسماعیل کے دور میں ملی جس کے بارے میں وزیراعظم شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف نے ہمیں ناک سے لکیریں نکلوائی ہیں پھر اسحاق ڈار کو لایا گیا کیونکہ وہ کہتے تھے کہ مجھے پتہ ہے آئی ایم ایف سے کیسے ڈیل کرنا ہے مگر جلد ہی انہیں مایوسی ہوئی جب آئی ایم ایف نے سیلاب متاثرین بحالی پروگرام کیلئے اسحق ڈار کی سفارشات مسترد کر دیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دسمبر میں کرسمس اور نئے سال کی چھٹیوں کے بعد آئی ایم ایف سے مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے۔
اس اثنا میں پاکستان نے آئی ایم ایف کی سکروٹنی پوری کرنے کے بجائے سفارتی ذرائع سے اس کا حل کرنے کی کوشش کی ہے اور آئی ایم ایف کو سب سے زیادہ فنڈ دینے والے ممالک امریکہ، برطانیہ اور جاپان جیسے ممالک سے سفارتی رابطے کئے تھے کہ وہ آئی ایم ایف کی سفارش کر تے کہ وہ پاکستان کا قرضہ منظور کر لے۔ آئی ایم ایف میں ان 3 ممالک کا حصہ تقریباً 27 فیصد ہے۔
اس دوران حکومت مخالف عناصر نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر پاکستان کی معاشی حالت، دیوالیہ پن اور ملک میں ایمر جنسی نافذ کرنے کی افواہ اڑادی کہ بنک دیوالیہ ہو جائیں گے اور کھاتہ داروں کو ان کے پیسے نہیں ملیں گے ملک میں پٹرول دستیابی میں مشکلات ہوں گی حکومت ایک گاڑی میں ایک یا دو مسافروں کے سفر پر پابندی لگادے گی وغیرہ وغیرہ یہاں تک خبریں اڑائی گئی ہیں کہ بنکوں سے پیسے نکال لیں اور گھروں میں راشن ذخیرہ کر لیں ان ہوشربا خبروں اور قیاس آرائیوں کے پیچھے اپوزیشن کا ہاتھ بھی ہے جو کہتے ہیں کہ حج اور عمرہ پر بھی پابندی لگنے والی ہے اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ لینے والے کی ٹیکس ریٹرن چیک کی جائے گی مگر حقیقت یہ ہے کے اس طرح کے لوگ پاکستان کے دوست نہیں ہیں کچھ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ آئی ایم ایف نے حکومت کو ریٹائرڈر سرکاری ملازمین کی پنشن بند کرنے کی شرط رکھ دی ہے۔
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ بالفرض آئی ایم ایف پاکستان کا قرضہ منظور بھی کر دیتی ہے تو اس سے جو 1.3 بلین ڈالر کی قسط ملے گی وہ کہاں کہاں خرچ ہوگی۔ جولائی 2023 ء سے پہلے پہلے پاکستان کو 16 ارب ڈالر کا گز شتہ قرضہ بھی واپس کرنا ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کو سری لنکا کی مثال دی جا رہی ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابو میں نہیں آرہا کیونکہ ہماری امپورٹ جس میں سب سے زیادہ پیسہ پٹرول اور گیس در آمد پر خرچ ہو رہا ہے اس کے مقابلے میں ہماری ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے جس سے ملک میں ڈالر کا بحران ہے اور ڈالر کا ریٹ 235 روپے تک پہنچا ہوا ہے۔
ملک میں اشیائے خورو نوش کی قیمتیں آسمان پر ہیں اشیاء کی قلت نہیں ہے صرف چور بازاری اور من مانی اور حکومتی پرائس کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے عوام مہنگائی کے ہاتھوں پس کر رہ گئے ہیں جس میں بنیادی کردار کریانہ فروشوں اور ریڑھی والوں کا ہے ۔یہ سارا ناجائز منافع کسان یا کا شکار کو نہیں بلکہ مڈل مین اور کریانہ اور ریڑھی فروشوں کی جیب میں جا رہا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے حکومت کو پٹرول سے جو ٹیکس حاصل ہوتے ہیں ان میں کمی آگئی ہے جبکہ دوسری طرف آئی ایم ایف نے 6000 ارب کے نئے ٹیکس لگانے کی شرط رکھ دی ہے جس میں پٹرول پر 17 فیصد جی ایس ٹی کیلئے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پٹرول کی عالمی قیمتیں 145 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 75 ڈالر تک گر چکی ہیں مگر حکومت پاکستان قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو پہنچانے کے بجائے ملکی خزانے کی پیاس بجھانے کی فکر میں ہے حالانکہ عالمی مارکیٹ کے لحاظ سے پاکستان میں پیڑول کی قیمت میں کم ازکم 100 روپے فی لٹر کمی آنی چاہیے مگر اس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔
موجودہ حکومت مہنگائی کے خاتمے کیلئے وجود میں آئی تھی بلکہ پی ڈی ایم کے قیام کی وجہ ہی مہنگائی تھی مگر عملاً جب سے یہ اقتدار میں آئے ہیں مہنگائی نے ساری رسیاں تڑا کر مادر پدر آزاد حیثیت اختیار کرلی ہے حکومت کے پاس اس کے خاتمے یا اس کی شدت میں کمی کا کوئی پروگرام نہیں ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس بھی اس کا کوئی حل نظر نہیں آتا ۔
پاکستان میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی کو ہرطرف سے خیر مقدم کیا جارہا ہے۔ فوج کے ریاستی کردار کی حیثیت برطانیہ کے غیر تحریر شدہ آئین کی مانند ہے جو لکھا ہوا نہیں ہے مگر روایات چلی آرہی ہیں جن پر عمل درآمد ہوتا ہے یہی حال ہمارے ہاں آرمی کا ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ بار بھی آرمی چیف (سابق) کے فون کرنے پر امریکہ نے آئی ایم ایف کو پاکستان سے نرمی کرنے کا کہا تھا جس سے ہمیں 8 ویں قسط ملی تھی یہ آپشن اس دفعہ بھی استعمال کرنا پڑ سکتا ہے البتہ نئے آرمی چند کیلئے جو چیلنج در پیش ہیں ان میں ملک کی اقتصادیات پہلے نمبر پر ہے۔ دوسرے نمبر پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت اور پاکستانی اور عوام کی خاطر اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے نفرت اور انتقام کی سیاست سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔
ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے پرائیویٹ بزنس سکڑ رہے ہیں اور جرائم کی نئی لہر اپنے عروج پر ہے جسکی بنیادی وجہ بھی ملک کا معاشی بحران ہے۔ اگر اس کا سدباب نہ کیا گیا تو ملک ایک نا قابل بیان انارکی کی طرف چلا جائے گا۔ پوری دنیا کی نظریں اس وقت پاکستان پر لگی ہوئی ہیں اگر سیاسی قیادت نے بصیرت کا مظاہرہ نہ کیا تو ملک سری لنکا والی صورتحال سے دوچار ہو جائے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اصلاح احوال کاسوچیں۔