سابقہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ (ریٹائرڈ) نے 29نومبر کو فوج کی کمان اپنے جانشین جنرل عاصم منیر کو سونپتے ہوئے اپنے الوداعی خطاب میں کہا تھا کہ فوج سے روحانی تعلق ہمیشہ قائم رہے گا لیکن عنقریب وہ گمنامی میں چلے جائیں گے۔ جنرل باجوہ کے فوج سے روحانی تعلق ہمیشہ قائم رہنے کے بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ جس قومی ادارے میں آپ نے اپنی زندگی کے کم و بیش چار عشرے یا اس سے بھی زیادہ عرصہ گزارا ہے، جس کی ترقی اور پرداخت میں اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے، جس نے آپ کو اتنی عزت دی ہے کہ فور سٹار جنرل کی حیثیت سے چھ سال تک آپ نے اس کی کمان کر رکھی ہے اور جس سے وابستہ ہر شخص آپ کے ایک اشارے پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار رہا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اُس سے آپ کا روحانی یا قلبی تعلق ختم ہو جائے۔
بلا شبہ جنرل باجوہ کا فوج سے تعلق قائم رہے گا لیکن جہاں تک ان کے عنقریب گمنامی یا گوشہ گمنامی میں چلے جانے کا تعلق ہے یہ قرین از قیاس نہیں بلکہ خارج از امکان ہے۔ اس لیے کہ جنرل باجوہ اپنے اثاثے یا Legacyکے طور پر اتنا کچھ چھوڑ کر جا رہے ہیں کہ یہ ان کو کبھی گمنامی میں جانے نہیں دیں گے۔ جنرل باجوہ کو فوج سے ریٹائرڈ ہوئے ابھی محاورتاً جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں بلکہ حقیقتاً آٹھ دن یا ایک آدھ عشرہ گزرا ہے لیکن اُن کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں کئی مقتدر شخصیات کے بیانات سمیت میڈیا پرسنز جن میں معتبر، مستند اور باخبراینکر پرسنز، کالم نگار اور تجزیہ نگار شامل ہیں کے تبصرے، تجزیئے، جائزے اور کالم وغیرہ چھپے ہیں یا سامنے آئے ہیں اور اُن میں جس طرح کے حقائق سے پردہ اُٹھ رہا ہے یا اُٹھوایا جا رہا ہے اُن کو سامنے رکھ کر پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ جنرل باجوہ کے ذکر کو میڈیا میں ہی نہیں بلکہ لوگوں کی زبانوں پر بھی جاری رکھے گا اور اُن کا گوشہ گمنامی میں چلے جانا یا اس کی خواہش کرنا ایں خیال است، محال است و جنوں است ہی بنا رہے گا۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ سابقہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ (ریٹائرڈ) کئی حوالوں سے ایک قابل قدر اور قابلِ ذکر شخصیت ہیں۔ اُن کی شخصی حیثیت اور بطور آرمی چیف ، ان کے کردار، اعمال و افعال اور انداز فکر و نظر کے بارے میں کئی لوگوں کو اتفاق اور بہت سارے لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہے، تاہم میڈیا میں کئی حلقوں کی طرف سے حقائق کے نام پر جو انکشافات کئے جا رہے ہیں اور ٹی وی چینلز کے حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں اور ٹاک شوزمیں ان کے بارے جو تبصرے اور تجزیے ہو رہے ہیں اور اخباری کالموں اور مضامین میں خیال آرائی کا جو سلسلہ جاری ہے بلا شبہ یہ سب کچھ ایسا نہیں ہے کہ اسے رد کیا جا سکے یا حقائق کے منافی قرار دے کر نظر انداز کیا جا سکے۔ یہ درست ہے کہ ان کی بنا پر جنرل باجوہ کی ذات کو کچھ حلقوں کی طرف سے تعریف و تحسین کا مستحق گردانا جا رہا ہے تو ان سے بڑھ کر کچھ حلقوں کی طرف سے انھیں تنقید کا نشانہ ہی نہیں بنایا جا رہا ہے بلکہ ان کے بارے میں کئی طرح کے تحفظات اور شکوک و شبہات کا اظہار بھی سامنے آ رہا ہے۔ یہاں جنر ل باجوہ پر تعریف و تحسین کے پھول نچھاور کرنا یا ان پرطنز و تنقید کے تیر برسانا یا ان کے بارے میں خدشات و تحفظات کے پہلوؤں کودھرانا یا اُجاگر کرنا مقصود نہیں ، نہ ہی ان پر نیک نامی یا بدنامی کے لیبل لگانا مقصود ہے تاہم جنرل باجوہ کی شخصیت ، اُن کی بطور آرمی چیف تقرری اور ان کی طر ف سے کئے جانے والے بعض اقدامات اور ان کی شخصیت کے ایک ایسے پہلو جس سے مبینہ طور پر ان کی احسان فراموشی اور محسن کشی کا اظہار سامنے آتا ہے کے بارے میں کچھ خیال آرائی کرنا کوئی ایسی نامناسب بات نہیں ہوگی کہ
اس حوالے سے بہت کچھ سامنے آ رہا ہے تو راقم کو ذاتی طور پر بھی اس بارے میں کب سے کچھ نہ کچھ آگاہی حاصل رہی ہے۔
اگلے دن ایک بڑے قومی معاصر میں "ایک اُستاد اور تین شاگردوں کی کہانی"کے عنوان سے معروف کالم نگار اور یوٹیوب وی لاگر محترم محمد بلال غوری کا ایک کالم چھپا ہے جس میں وہ کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر جنرل باجوہ کی شخصیت کے احسان فراموشی اور محسن کشی کے پہلو سامنے لے کر آئے ہیں۔ انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ نومبر 2016ء میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے جنرل باجوہ کی بطور آرمی چیف تقرری کی منظوری دی تو اس تقرری میں وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھی اور مشیر محترم عرفان صدیقی (موجودہ سینیٹر مسلم لیگ ن) اور وزیرِ اعظم کے انتہائی بااعتماد اور بااختیار پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی سفارشات اور آرا کا بڑا عمل دخل تھا، محترم کالم نگار نے اپنے کالم میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ جنرل باجوہ نے اپنے دونوں محسنوں کے ساتھ بعد میں جو سلوک کیا وہ بھی انتہائی سبق آموز ہے۔ وہ لکھتے ہیں ،"ا سے فلک کج رفتار کی غلط بخشش کہیں یا حالات کی ستم ضریفی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو جن دو شخصیات نے آرمی چیف بنوایا ان دونوں کو بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی، جنر ل قمر باجوہ کے اُستاد عرفان صدیقی کو 26جولائی 2019ء کوکرایہ داری کے بوگس مقدمے میں گرفتار کرکے سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کے ساتھ قصوری چکی میں بند کر دیا تو فواد حسن فواد کو بے بنیاد مقدمات کے تحت 19ماہ قید کاٹنا پڑی۔ بعد ازاں نواز شریف نے عرفان صدیقی صاحب سے گلہ کیاکہ دیکھیں آپ کے شاگرد نے کیا کیا؟ میاں نواز شریف نے کئی بار یہ بات کہی کہ اگر عرفان صدیقی نہ کہتے تو وہ کبھی جنرل باجوہ کو آرمی چیف نہ بناتے۔ اس گرفتاری کا ذمہ دار اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو سمجھا جاتا رہا لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ عرفان صدیقی کو ان کے شاگرد جنرل قمر باجوہ کے حکم پر حراست میں لیا گیا ورنہ ملک کی طاقتور ترین شخصیت کے استاد پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت کون کر سکتا تھا؟ "
محترم بلال غوری کے اس انکشاف پر راقم کسی طرح کی تبصرہ آرائی کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ بڑا ہی واضح اور چشم کشا ہے۔ تاہم راقم اتنا کہنے کی جسارت ضرور کرنا چاتا ہے کہ محترم بلال غوری کے اس انکشاف میں میرے یا ہمارے مختصر حلقہ احباب کے انتہائی محترم ساتھی عزیزِ گرامی ڈاکٹر ندیم اکرام کے لیے ایک آدھ پہلو کو چھوڑ کر کوئی نئی بات نہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائرڈ گزشتہ صدی کے ستر کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں سی بی سر سید کالج دی مال راولپنڈی (موجودہ ایف جی سر سید کالج و ایف جی سر سید سیکنڈری سکول) میں زیرِ تعلیم تھے تو محترم عرفان صدیقی اور راقم وہاں بطور سینئر ماسٹر تعینات تھے۔ راقم کو پوری طرح یاد نہیں کہ اس نے باجوہ صاحب کی کلاس کو چھٹی سے آٹھویں تک انگلش، اُردو یا سوشل سٹڈیز میں سے کون سا مضمون پڑھایا تھا تاہم راقم بڑی حد تک وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ نویں دسویں میں جنرل باجوہ نے عرفان صاحب سے اُردو کا مضمون پڑھا ہوگا۔ میٹرک کے بعد جنرل باجوہ نے سی بی سر سید کو چھوڑ کر گارڈن کالج میں داخلہ لیا تاہم انھوں نے سی بی سر سید کالج کے سکول سیکشن کے اساتذہ کو ہمیشہ یاد رکھا۔ راقم نے "الوداع جنرل قمر جاوید باجوہ "کے عنوان سے 30نومبر کو چھپنے والے اپنے کالم میں اس کا ذکر کیا ہے کہ مئی 2015ء میں جب جنرل باجوہ بطور تھری سٹار جنرل کمانڈر 10کور راولپنڈی تھے تو اپنے مادرِ علمی موجودہ ایف جی سر سید سیکنڈری سکول (سابقہ سی بی سر سید کالج) میں لائبریری کا افتتاح کرنے تشریف لائے تو انھوں نے بطورِ خاص اپنے سکول کے دور کے بقیدِ حیات اور دستیاب اساتذہ کو اس تقریب میں مدعو کرنے کی ہدایت کی تھی۔ راقم اپنے چند پرانے رفقاء کے ساتھ اس تقریب میں موجود تھا ۔ جنرل باجوہ بڑے تپاک سے ملے اور چند دن بعد انھوں نے 10کور آفیسر میس میں برنچ کی دعوت کا احتمام کیا تو سکول کے اپنے ہم جماعت ساتھیوں کو بلانے کے ساتھ ہم اپنے پرانے اساتذہ کو بھی بطورِ خاص مدعو کیا۔ نومبر 2016ء میں آرمی چیف بننے کے بعد بھی سکول کے اپنے ایک دو اساتذہ (راقم ان میں شامل نہیں) سمیت سکول کے اپنے پرانے ساتھیوں کے ساتھ بھی ان کا رابطہ قائم رہا۔
جنرل باجوہ کے اپنے اساتذہ یا سکول کے زمانے کے اپنے ساتھیوں سے روابط رکھنے کے اس سیاق و سباق سے ہٹ کر بھی راقم اپنی ذاتی معلومات کی بنا پر کہہ سکتا ہے کہ محترم بلال غوری نے اپنے کالم میں جنرل باجوہ کی اپنے استاد محترم عرفان صدیقی صاحب سے رابطے اور جنرل باجوہ کے آرمی چیف کے طور پر تعیناتی کے لیے محترم عرفان صدیقی اور عزیزِ گرامی فواد حسن فواد کی سفارشات کا ذکر کیا ہے وہ بڑی حد تک درست ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ بات بھی درست ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے سسر جنرل اعجاز امجد (ریٹائرد) نے بھی فواد حسن فواد کے خاندانی ذرائع کے ذریعے انھیں قمر جاوید باجوہ کے حق میں رائے دینے یا سفارش کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ شاید اسی بنا پرجب جنرل باجوہ کے بطورِ آرمی چیف تقرری کی سمری پر دستخط ہو گئے تو وزیرِ اعظم ہاؤس میں یہ تذکرہ بھی ہوا کہ جنرل اعجاز امجد کو فون پر اس بارے میں بتا دیا جائے تاکہ وہ اپنی بیٹی (جنرل باجوہ کی اہلیہ) کو یہ خوش خبری سنا سکیں، لیکن شاید اس پر عمل نہ ہوا۔
یہ اب ایک کھلا راز ہے کہ نومبر2016ء میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف تقرری میں محترم عرفان صدیقی اور فواد حسن فواد بالخصوص محترم عرفان صدیقی کا بڑا نمایاں کردار تھا۔ ہر دو محترم حضرات نے اس تقرری کے لیے جنرل باجوہ کے نام کی سفارش کی تو اس میں سے ان کا کوئی ذاتی مفاد پوشیدہ نہیں تھا۔ وہ خلوص دل سے سمجھتے تھے کہ جنرل باجوہ جیسے آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے اور ملکی و قومی مسائل کو اپنے حقیقی تناظر میں دیکھنے اور پرکھنے والے اور جمہوریت پسند کی شہرت رکھنے والے جرنیل کی بطور آرمی چیف تقرری سے جہاں فوج اور سویلین حکومت میں پائی جانے والی دوری اور بُعد کو ختم کرنے میں مدد ملے گی وہاں ملک میں سویلین بالادستی اور جمہوری روایات کے استحکام کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔ جنرل باجوہ کے دور میں کیا ایسا ہوا یا نہیں ہوا اور اگر ایسا نہیں ہوا تو اس کی زیادہ ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اس سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ جنرل باجوہ کے بطور آرمی چیف دور میں محترم عرفان صدیقی کی بغیر کسی قصور کے گرفتاری اور اڈیالہ جیل میں قصوری چکی میں بند کیے جانے اور عزیزِ گرامی فواد حسن فواد کو جرم بے گناہی میں نیب کی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بننے، 19ماہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند رکھنے اور بعد میں اپنے گھرانے کی معزز اور محترم خواتین سمیت بے بنیاد الزامات پر مبنی ریفرنسز کا سامنا کرنے جیسے المناک و شرمناک واقعات پیش آئے ہیں ۔ ان واقعات کو آج اگر انتقامی کارروائی یا جنرل باجوہ کا اثاثہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تو اس کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ فرض محال ان کی براہ راست ذمہ داری اگر جنرل قمر جاوید باجوہ پر عائد نہیں ہوتی تو پھر بھی انھیں ان واقعات سے بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس طرح کے واقعات آرمی چیف جیسی انتہائی با اختیار اورطاقتور ترین شخصیت کی اجازت یا مرضی اور منشا کے بغیر کیسے رونما ہو سکتے تھے۔