اس دفعہ کرپشن کی سالانہ ریٹنگ میں پولیس پہلے اور عدلیہ دوسرے نمبر پر آئی ہے۔ ایک سروے کے مطابق کوئی بھی سرکاری محکمہ کرپشن سے پاک نہیں۔ ہر جگہ کرپشن کے مختلف ریٹ ہیں اور ہرگزرتے دن کیساتھ کرپشن کی لعنت میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے وہ ہم سب کیلئے بحیثیت قوم لمحہ فکریہ ہے۔ یہ زہر جب معاشرے کے بالادست طبقے میں سرایت کر جاتا ہے اور حکومت کے ایوانوں تک پہنچتا ہے تو قومی زندگی کے ہر شعبے اور ہر پہلو کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کرتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں نظر آرہا ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی کے باعث تعلیم سے لیکر زراعت ¾ صنعت ¾ تجارت ¾ محصولات ¾ ریلوے ¾ بجلی ¾ پٹرولیم ¾ سپورٹس اورسیاست سمیت ہر شعبہ دیمک زدہ محسوس ہو رہا ہے اور ہم اپنی اعلیٰ اخلاقی و سماجی قدروں سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ کرپشن جب معاشرے میں جڑ پکڑتی ہے تو رشوت کے چلن یا قومی خزانے میں خورد برد تک محدود نہیں رہتی بلکہ میرٹ کو نظر انداز کرکے نااہل افراد کی تقرریوں ¾ سرکاری وسائل کے ناجائز استعمال ¾ غیر ملکی اداروں سے حاصل ہونے والے کمیشن کے عوض ملکی وسائل کو ترقی و خوشحالی کیلئے بروئے کارنہ لانے ¾ سرکاری مراعات کو شاہانہ اخراجات میں تبدیل کرنے ¾ مخصوص طبقات کو ٹیکس سے بچانے کیلئے غریبوں پر مہنگائی کا بوجھ لادنے ¾ امتحانات میں بدعنوانیاں کرنے اور انتخابی اخراجات بڑھا کر عوامی نمائندگی ایک طبقے تک محدود کرنے سمیت مختلف صورتوں میں ظاہر ہو کر معاشرے کو ایسا پلٹ کر رکھ دیتی ہے جسکے نتیجے میں پاکستان جیسا قدرتی وسائل اورا فرادی قوت سے مالا مال ملک آج مہنگائی سمیت غربت ¾ بیروزگاری کی دلدل سے پھنسا نظر آرہا ہے جبکہ دریائی پانی ¾ تیل و گیس کے زیر زمین ذخائر کوئلے ¾ تانبے اور سونے کی کانوں ¾ سمندر جیسی بے بہا نعمت ¾ برف پوش پہاڑوں اور زرخیز زمین سے لیکر سورج کی بے پناہ توانائی کے حامل اس ملک کو دنیا کے انتہائی خوشحال اور ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہونا چاہئے تھا۔ ان سب نعمتوں کے علاوہ پاکستان کو قدرت نے ایسی محنتی ¾صابر و شاکر افرادی قوت دی ہے جو برے سے برے حکمرانوں سے بھی تعاون کیلئے تیار رہتی ہے مگر بدقسمتی سے غیر ملکی استعمار کے پروردہ جاگیرداروں نے اپنے پالتو جانوروں کواس ملک کے محنت کشوں اورکسانوں سے افضل سمجھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کی ذاتی جیلوں ¾کارندوں او پروردہ جرائم پیشہ گروہوں کے ذریعے پسے ہوئے طبقات کی حق تلفیوں اور ان پر مظالم کا سلسلہ دراز رہا۔ بدعنوانیوں پر مبنی سفاکانہ نظام برقرار رکھنے کیلئے ملک کی اکثریتی آبادی کے حامل مشرقی بازو کی علیحدگی کے حالات صرف اس لئے پیدا کئے گئے کہ وہاں کے غریب اور متوسط طبقے پر مشتمل قیادت کے حکومتی ایوانوں میں آنے سے جاگیردار طبقے کے مفادات پر ضرب پڑنے کے خدشات تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی ¾ بھتہ خوری ¾ زمینوں پر قبضے ¾ سمگلنگ ¾ اغواءبرائے تاوان ¾ قومی وسائل کی خورد برد کرنیوالی مافیا ملک بھر میں کام کر رہی ہے اور اس کی روک ٹوک یا اس کے سرپرستوں کی گرفت کرنیوالا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ زیادہ تر صاحبان اقتدار خود بھی گلے گلے تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ہر اس شخص کی سرپرستی کرتے ہیں جو کرپشن کیلئے تیار ہو۔ بڑے بڑے سکینڈلوں میں ملوث منفی شہرت کے حامل کو بلا بلا کر جس طرح بڑے بڑے عہدوں سے نوازا گیا موجودہ نظام کی کریڈبیلٹی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بانی پاکستان کے اس رہنما اصول کو پش پشت ڈال دیا گیا ہے کہ سرکاری افسران کو صرف ان احکامات کو ماننا چاہئے جو آئین اور قانون کے مطابق ہوں خواہ اس کیلئے انہیں جیل جانا یا تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔ اس ملک میں یہ صورتحال بھی رہی کہ جن افسروں کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے قصوروار قرار دیکر ان کے عہدے سے برطرفی کا حکم دیاانہیں کسی دوسری جگہ اعلیٰ تر عہدوں پر فائز کر دیاگیا۔ ہمارے ہاں کرپشن پر گرفت نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ متاثرہ فریق بااثر افراد یا جرائم پیشہ افراد کے دباﺅ میں آکر خاموش ہو جاتاہے جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش سمیت قریبی ملکوں میں ایسی باتوں پر عوامی ردعمل سامنے آتا ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ کی طرف سے کرپشن کے خلاف بعض اقدامات سامنے آتے رہتے ہیں تاہم ان اقدامات پر عملدرآمد نہیں ہو سکا اورنہ ہی کوئی بڑی مہم سامنے آئی۔جبکہ اس وقت تو ضرورت اس بات کی ہے کہ عدلیہ پہلے خود اپنے حالات کا جائزہ لے کیونکہ اس کا نام کرپشن کرنے والوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آیا ہے ۔یقینا اس سے ملک کی بدنامی ہوئی ہے اور نظریہ ضرورت سے شروع ہونے والا سلسلہ اپنے انتہا کو پہنچ چکا ہے ۔اسے ٹھیک کرنے میں حکومت وقت کی کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی کیونکہ وہ تو خود اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہے۔سوال تو یہ ہے کہ یہ کب تک جاری رہے گا جہاں تک پولیس اور باقی محکموں میں کرپشن کا تعلق ہے اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا یہ سب باآسانی ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن اس وقت جب عدلیہ ٹھیک ہو وہاں انصاف فراہم کیا جا رہا ہو ۔بعض اوقات تو یہ لگتا ہے کہ جیسے ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں زیادہ تر افراد انصاف کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں ہر کوئی عدلیہ کے بگاڑ میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے چاہے وہ وکیل ہو اسٹیبلشمنٹ ہو یا عام شہری ۔یہ سب باتیں بے معنی ہو جائیں گی اگر عدلیہ مصمم ارادہ کر لے کہ اس نے انصاف فراہم کرنا ہے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت چکانی پڑے پھر نہ کوئی اسٹیبلشمنٹ غلط قدم اٹھانے کا کہے گی اور نہ کوئی وکیل۔جس دن ایسا ہو جائے گا پھر نہ واپڈا میں بے ضابطگیوں کی خبر آئے گی اور نہ ایف بی آر کی طرف سے اعداد و شمار میں غلط بیانیوں جیسے سکینڈلوں سامنے آئیں گے ، یہ تو ہمارے وزیر اعظم عمران خان بھی کہتے رہے ہیں کہ جب کرپشن نہیں ہو گی تو بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوںمیں اضافے کے کوڑے بھی عوام پر نہیں برسیں گے۔یہ کرپشن ہی ہے جس کے باعث حکومتی اخراجات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ¾ افراط زر کی سنگین صورتحال کے باعث عوام دو وقت کی روٹی تک رسائی سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ اب صرف دانشوروں ¾ اساتذہ ¾ طلباء¾ علماء¾ صاحبان فکر اور میڈیا سے امیدیں وابستہ ہیں۔ ان کا مو¿ثر اور بھرپور ردعمل ہی اس صورتحال کو تبدیل کر سکتا ہے۔اس سب کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی سوچنا ہو گا کہ ملک کو اس حال تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے کیونکہ جب عدلیہ کی یہ صورتحال ہو گی تو ہر طرف اندھیر نگری ہی ہو گی اگر ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے کچھ غلطیاں بھی کی ہیں تو اب ان کا کفارہ ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے ۔