ملک سستا ہے تو ہاہا کار کیوں؟

08:49 AM, 11 Dec, 2021

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ پاکستان سستا ملک ہے یعنی یہاں اشیائے ضروریہ سستے داموں دستیاب ہیں جبکہ یہی چیزیں دوسرے ممالک میں بڑی مہنگی ملتی ہیں۔ 
کیا کہنے جی!
نجانے انہیں کون لوگ ہیں جو ایسی معلومات فراہم کرتے ہیں یا پھر وہ خود کو ذہین ظاہر کرنے کے لیے ایسی باتیں کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے علم میں ہونا چاہیے کہ ہمارے ہاں مہنگائی ملک کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے اور لوگوں کا ”ساہ“ رک رک جا رہا ہے خون رگوں میں خشک ہونے کے قریب تر پہنچ چکا ہے۔ لگتا ہے کہ انہیں جو کچھ بتایا جاتا ہے وہ باقاعدہ کسی پروگرام کا حصہ ہے کہ ان کو عوام کی نگاہوں میں گرانے کے لیے وہ کچھ بتایا اور سمجھایا جائے جس کا سر ہو نہ پیر۔ ویسے وہ خود ملک کے حالات جاننے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے۔ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ دونوں تک ان کی رسائی تو ہو گی پھر وہ کیوں ان سے استفادہ نہیں کر رہے مگر شاید وہ سب جانتے ہوئے ایسے بیانات جاری کرتے ہیں تا کہ عوامی توجہ ان کی کارکردگی پر مرکوز نہ ہونے پائے اور لوگ ان کے بیانات کی بھول بھلیوں میں کھوئے رہیں پھر کچھ دنوں کے بعد وہ ایک اور بیان داغ دیں کہ ان کا مطلب یہ نہیں تھا وہ تھا وہ جانتے ہیں کہ حقائق کیا ہیں انہیں سب معلوم ہے۔ بہرحال عرض ہے کہ یہاں بہت مہنگائی ہو چکی ہے اور قوت خرید بلک رہی ہے ، بیروزگاری نے اپنے پنجے اس سماج کی پشت پر گاڑ رکھے ہیں جس سے وہ انتہائی تکلیف میں ہے اب جب موجودہ حکومت کو ساڑھے تین برس ہو چکے ہیں تو اس کی معاشی، صنعتی اور سیاسی سرگرمیاں لائق تحسین قرار نہیں پا سکیں۔ اگرچہ اس کے ”بوزنے“ بڑی کوشش کر رہے ہیں کہ عوام حکومت کی تعریف کریں اسے سر متھے پے بٹھائیں مگر اس میں وہ ناکام نظر آتے ہیں کیونکہ اب عوام اتنے بھی بیوقوف نہیں کہ ان کی چکنی چپڑی اور فارمولا گفتگوو¿ں سے متاثر ہو کر اپنی مشکلات کا رونا رونے سے رک جائیں انہیں تو یہ امید دلائی گئی تھی کہ ادھر پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہو گی۔ ادھر سارے غم اور دکھ ختم ہو جائیں گے۔ 
عمران خان اپنے جلسوں اور ٹی وی پروگرامز میں یہ کہتے تھے کہ نواز اور زرداری حکومتوں نے عوام کے ساتھ جو کیا آئندہ ان کی حکومت ویسا نہیں ہونے دے گی مثلاً ان کے ادوار میں قانون کی حکمرانی پر توجہ نہیں دی گئی تمام سرکاری اداروں میں رشوت عام تھی اور لوگوں کو ایذا پہنچائی جاتی، قبضہ گروپوں نے بلا خوف اپنے دھندے جاری رکھے کمیشن خوروں نے بڑے دھڑلے سے عوامی پروجیکٹس میں اپنا حصہ ہڑپ کیا اور میڈیا پر پابندیاں عائد کیں اب اگر غور سے سے دیکھا جائے تو وہی کچھ ہو رہا ہے بلکہ اس میں تیزی آئی ہے۔ ہر طرف ایک ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی ایسے علاقے میں رہ رہے ہیں جہاں گروہی نظام نافذ ہے جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کرگزرتا ہے۔ کوئی قانون کوئی ضابطہ اس کی راہ میں موجود دکھائی نہیں دیتا لہٰذا صورت حال بے حد خراب ہے۔ لوگوں کو ادھار لے کر اپنے یوٹیلٹی بل ادا کرنا پڑ رہے ہیں بعض غریبوں کو تو خیراتی اداروں اور مخیر حضرات کی طرف رخ کرنا پڑ رہا ہے۔ نوجوانوں میں سے کچھ جو بے روز گار ہیں اور ان سے اپنے والدین کی غربت دیکھی نہیں جاتی جرائم کی راہ پر آ گئے ہیں دھوکا دہی کی وارداتیں عام ہو چکی ہیں۔ سماجی ڈھانچہ کی جانب آتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہر کوئی ایک دوسرے سے کھنچا ہوا ہے حقوق سلبی کی جا رہی ہے خونی رشتوں کی پہچان ختم ہو چکی ہے کسی کو کسی سے تھوڑا بہت مفاد ہے تو تعلق ضروری وگرنہ تو کون اور میں کون۔ 
یہ سب عمران خان وزیراعظم پاکستان کی نگاہوں سے اوجھل کیوں ہے اگر یہ ملک سستا ہوتا تو پھر یہ جو ایک خوفناک بگاڑ جنم لے چکا ہے وہ کیوں ہوتا کبھی خوشحال اور انصاف پسند معاشروں میں انہوں نے ایسی خرابیاں اور مسائل دیکھے ہیں وہاں اور طرح کے خرابات ہوتی ہیں مگر وہ فیصلے ٹھیک کرتے ہیں انصاف کرتے ہیں کسی کو دھوکا نہیں دیتے لہٰذا ان کا نظام حیات بہ احسن طریق رواں رہتا ہے جو مسائل در پیش ہوتے ہیں انہیں وہ مل جل کر حل بھی کر لیتے ہیں۔ 
خیر عمران خان کو عوام کی کراہیں سنائی نہیں دے رہی ہوں گی اگر سنائی دیتیں تو وہ کبھی یہ نہ کہتے، لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں اپنے جسموں کو بیچ رہے ہیں اور جسمانی اعضا فروخت کر رہے ہیں کیوں؟ کیونکہ وہ مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہو چکے ہیں۔ ہر روز قیمتیں بڑھ رہی ہیں کھانے پینے کی چیزوں کی۔ ان کی انتظامیہ مگر حرکت میں نہیں آتی کہ جو مصنوعی مہنگائی ہو رہی ہے اسے تو روکا جائے۔ وہ اکا دکا چھاپے بھی مارتی ہے جو محض دکھا وا ہوتا ہے اس کے بعد دفاتر میں جا کر گپیں ہانکتی ہے مافیا اس کی ہمیشہ مٹھی گرم رکھتا ہے۔ کوئی حال ہے ہمارا، جناب وزیراعظم اب تو یہاں مرنا بھی سستا نہیں رہا۔ آپ بات کرتے ہیں سستا ہونے کی لہٰذا آنکھیں کھولیے۔ غربت اور غریب کی حالت جاننے کے لیے بھیس بدلئے اگر آپ حالات سے باخبر رہنا چاہتے ہیں تو۔ عجیب بات ہے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کو معلوم ہی نہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ جب وہ جو کہہ رہے ہیں کہ سردیوں کے بعد مہنگائی کم ہو جائے گی تو سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے کہ ایک طرف وہ سستا ہونے کا کہتے ہیں تو دوسری جانب مہنگائی کے کم ہونے کا مژدہ جانفزا سناتے ہیں یعنی وہ جو کہتے ہیں اس میں تضاد ہوتا ہے۔ اس حوالے سے تو ان کی اقتدار سے پہلے والی تقاریر اور گفتگوئیں دیکھی اور سنی جائیں تو اس امر کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کبھی بھی سنجیدہ نہیں ہوئے کسی نے جو انہیں بتایا اسے بول دیا۔ 
بہرکیف یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ اگلے پانچ برس بھی اقتدار میں رہیں تو دن عوام کے نہیں پھریں گے انہیں مسلسل آئی ایم ایف کی سختیاں جھیلنا پڑیں گی کیونکہ انہوں نے اس کی شرائط کے آگے سر اوپر نہیں اٹھانا لہٰذا عوام کو نیا سیاسی منظر ابھارنا ہو گا نئے چہرے جو قرضوں، مہنگائی، غربت اور بے روزگاری سے نجات دلائیں کو آگے لانا پڑے گا ۔ اگرچہ ”بادشاہ گر“ روایتی حکمران طبقہ میں سے ہی اقتدار میں لوگوں کو حکمرانی کے اہل سمجھ رہے ہیں مگر آزمائے ہوو¿ں کو آزمانا دانشمندی نہیں کیونکہ مسائل کی بوچھاڑنے ملک کا معاشی ڈھانچہ ہلا کر ہی نہیں دہلا کر بھی رکھ دیا ہے لہٰذا مستقبل میں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر آج جو ہاہا کار مچی ہوئی اس میں ہوشربا اضافہ ہو جائے گا کیونکہ صبر کا دامن لوگوں سے مزید نہیں پکڑا جاسکے گا۔ انہیں یہ یقین ہی نہیں ہوگا کہ نئی حکومت ان کے الم و مصائب سے چھٹکارا دلانے آئی ہے اس کی وجہ یہ ہو گی کہ وہ ماضی میں سب کو دیکھ آزما چکے ہوں گے لہٰذا عرض ہے تو اتنی کہ اب کسی بھی روایتی سیاسی جماعت کو مکمل اختیارات حاصل نہیں ہونے چاہئیں عوام کو عام انتخابات میں اس پہلو کو مدنظر رکھنا ہو گا وگرنہ انہیں ایک اور پچھتاوا ہوگا۔ 

مزیدخبریں