”دلہنیں برائے فروخت“

16 سالہ سنیتا علی زادے کے والدین نے ایک روز اس پر یہ کہہ کر بجلی گرادی کہ وہ اس کی شادی کرنے والے تھے۔

”دلہنیں برائے فروخت“

واشنگٹن :  افغانستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں لڑکیوں کو چھوٹی عمر میں بیاہ دینا روایت کا حصہ ہے، لیکن اسی ملک میں ایک کمسن لڑکی نے جبری شادی سے بچنے کے لئے ایک انتہائی غیر متوقع سہارا ڈھونڈا اور حیران کن طور پر کامیاب بھی ہو گئی۔  16 سالہ سنیتا علی زادے کے والدین نے ایک روز اس پر یہ کہہ کر بجلی گرادی کہ وہ اس کی شادی کرنے والے تھے۔ سنیتا کا کہنا ہے کہ اس نے اپنا بچپن ایران میں گزارا لیکن بعد میں جنگ کی بے امنی سے پریشان ہو کر اس کا خاندان افغانستان چلا آیا۔ یہاں سنیتا نے کراٹے سیکھے، فوٹوگرافی کا شوق اختیار کیا اور چھپ چھپا کر گانے بجانے کا کام بھی شروع کردیا۔ ایک روز اس کے والدین نے بتایا کہ انہوں نے اس کے بڑے بھائی کی منگنی کردی تھی اور شادی کے لئے رقم کی ضرورت تھی، جو سنیتا کو بیاہ کر حاصل کی جاسکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک مقامی مرد نے اس کے ساتھ شادی میں اظہار دلچسپی کیا تھا اور وہ بھاری رقم دینے پر بھی تیار تھا۔

یہ باتیں سن کر سنیتا پر تو گویا غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ وہ کمسنی میں شادی نہیں کرنا چاہتی تھی، بلکہ اپنی تعلیم اور دیگر مشاغل پر توجہ دینا چاہتی تھی۔ سنیتا نے اس صورتحال پر غمزدہ ہوکر ایک گیت لکھا جس کا عنوان ”دلہنیں برائے فروخت تھا۔“ اس نے یہ گیت خود ہی گایا اور اس کی ویڈیو بھی بنائی۔ سنیتا کی یہ ویڈیو سامنے آئی تو اسے خاصی مقبولیت حاصل ہوئی لیکن وہ بہت پریشان تھی کہ اس کے والدین اسے دیکھ کر کیا کہیں گے۔ اس کے خدشات کے بالکل برعکس اس کے والدین نے ویڈیو ڈیکھ کر ناصرف اس کے فن کو سراہا بلکہ جبری شادی کا ارادہ بھی ترک کردیا۔
سنیتا کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے امریکہ کے ایک کالج نے اسے سکالر شپ دیا اور اب وہ ریاست یوٹاہ میں مقیم ہے اور کالج کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ سنیتا کا کہنا ہے کہ ایک گیت نے اسے بچالیا ورنہ وہ آج ناصرف تعلیم سے محروم ہوتی بلکہ اس کی شادی ہوگئی ہوتی اور وہ کچھ بچوں کی ماں ہوتی۔

مصنف کے بارے میں