لاہور: سینئر صحافی حفیظ اللہ نیازی نے دعویٰ کیا ہے کہ نگران وزیراعظم پر اسٹیبلشمنٹ سے حکومت کی انڈرسٹینڈنگ نہیں ہو پا رہی، نگران سیٹ اَپ نے تو بے رنگ ،بے بو ،بے ذائقہ رہنا ہے،اقتدارسو فیصد اسٹیبلشمنٹ کو منتقل ہو جانا ہے۔
حفیظ اللہ نیازی نے اپنے کالم میں لکھا اگلے وزیر اعظم کے نام کے لیے قیاس آرائیاں زور و شور سے جاری ضرور ، سُن گُن رکھنے والے اور میڈیا پنڈت حتمی نام کاتعین کرنے میں قاصر ہیں۔ جتنے نام سامنے ، کھاتہ مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات پر مبنی،اپوزیشن لیڈر کاکھاتہ خالی ہے ۔ پچھلے 6 ہفتوں سے موثر حلقوں کیطرف سے کچھ نام میڈیا کو فیڈ کیے گئے۔بحث و تمحیص، خوبیاں خامیاں زیرِ بحث رہیں۔ بلحاظ آئین وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے نگران وزیراعظم کا حتمی نام آنا ہے ۔ ازراہِ تفنن، راجہ ریاض کے حوالے سے کوئی نام سامنے نہیں آیا۔
نقارخانہ میں طُوطی کی آواز بھی’’نگران وزیراعظم وہی جو نام راجہ ریاض دے گا۔ اصل فریق کی نمائندگی کر رہے ہیں‘‘۔ نگران وزیراعظم پر اسٹیبلشمنٹ سے حکومت کی انڈرسٹینڈنگ نہیں ہو پا رہی۔ علمِ ریاضی کے رہنما اُصول بتاتے ہیں کہ نگران سیٹ اَپ، الیکشن کمیشن و نیب سربراہان کی تقرری عملاً اسٹیبلشمنٹ کی اُمنگوں کے عین مطابق رہی ہے۔ ہمیشہ جو تعیناتی بھی اسٹیبلشمنٹ کی تابع فرمان رہتی ہے ۔
نگران سیٹ اَپ نے تو بے رنگ ،بے بو ،بے ذائقہ رہنا ہے،اقتدارسو فیصد اسٹیبلشمنٹ کو منتقل ہو جانا ہے۔ اس دفعہ اسٹیبلشمنٹ کی ایک ترجیح ، نگران وزیراعظم امریکہ اور IMF کو بھی جچ جائے ۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ کیطرف آنے والے ممکنہ ناموں میں حفیظ شیخ ، رضا باقر ، محمد میاں سومرو میں مشترک عناصر کہ ماہرِ اقتصادیات بھی اور امریکہ کے منظور نظر بھی ہیں۔ پہلے اسحاق ڈار بعد ازاں شاہد خاقان عباسی اور فواد حسن فواد کے نام شایدنواز زرداری میٹنگز میں فائنل ہوئے۔ چند دن پہلے جلیل عباس جیلانی کا نام بھی آ چُکاکہ اسٹیبلشمنٹ کو کسی ایک پر مطمئن کیا جا سکے۔
قوی امکان اسٹیبلشمنٹ کے نام کو ہی کامیابی ملنی ہے۔ اس دفعہ نگران سیٹ اَپ زیادہ شد ومد سے اس لیے زیرِ بحث کہ لمبے دورانیے کیلئے ہے، الیکشن کا انعقاد یا التواء عمران خان کی قسمت سے جُڑا ہے۔ اگر عمران خان کا مکو 3/4 مہینے میں ٹھپ دیا گیا تو6 ماہ بعد الیکشن ہو جائیں گے۔ بالفرضِ محال عمران اپنی مضبوط سیاست کیساتھ عملاً یا روحانی طور پر موثر رہے تو غیر معینہ مدت کیلئے الیکشن کا التواء یا مارشل لاء یا ایمرجنسی کا نفاذ ممکن رہنا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ عمران کا خاتمہ بالخیر کرنے میں عدالتی رکاوٹوں کو ٹاپنے کیلئے ہر حد عبور کرلے گی ۔ PCOجیسے قوانین بھی دُہرائے جا سکتے ہیں ۔ نگران سیٹ اَپ جو عملاً کٹھ پُتلی رہے گا ۔ عمران حکومت ، شہباز حکومت اورنگران سیٹ اَپ میں ایک قدر مشترک ، اقتدار اسٹیبلشمنٹ کے پاس رہاہے ۔ حکومت چلی گئی ، حکومت آ گئی، کوئی فرق نہیں پڑنے کو ہے۔