کاش پاکستان میں انتقامی سیاست کا جودور ایک زمانہ میں شروع ہوا تھا اس کا تسلسل ضرب تقسیم کے بعد تحریک انصاف کے دور میں جاری نہ رہتا ۔ انسان کتنا ہی صابر کیوں نہ ہو کتنا ہی نرم مزاج کیوں نہ ہو لیکن اگر باپ کے سامنے بیٹی کو گرفتار کیا جائے گا اور آدھی رات کو فائیو اسٹارہوٹل کے کمرے کے دروازے توڑ کر گرفتاریاں کی جائیں گی فریال تالپور ایسی عمر رسیدہ خاتون کو گرفتار کیا جائے گا تو پھر سیاست کے سینے میں تو ویسے بھی دل نہیں ہوتا لہٰذا جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق جو گڑھا دوسروں کے لئے کھودا جاتا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان خود اس گڑھے میں نہ گرے ۔شہباز گل گرفتار ہو چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید ہائی پروفائل سطح کی گرفتاریاں متوقع ہیں ۔گذشتہ ہفتے دو تین واقعات ایک ساتھ رونما ہوئے جن میں کابل میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کا ڈرون حملے میں مارے جانا، کور کمانڈر کوئٹہ کے ہیلی کاپٹر کا المناک حادثہ جس میں کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز سمیت 6 اہلکار شہید ہوئے اس کے ساتھ تیسری خبر یہ تھی کہ امریکن سفیر ڈونلڈ بلوم نے ہیلی کاپٹر میں خیبر پختونخوا کے سیلاب زدہ علاقے کا دورہ کیا ان تینوں واقعات کو لے کر ایک سیاسی جماعت کے ٹرولز نے سوشل میڈیا پر جس طرح کی ملک دشمن مہم چلائی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو شدید ردعمل کے بعد شٹ اپ کال دینی پڑی بلکہ صدر مملکت جو افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر بھی ہیں انھیں بھی اس مہم کے حوالے سے عسکری حلقوں اور خاص طور پر شہداء کے لواحقین میں جو رد عمل سامنے آ رہا تھا اس کے پیش نظر انھیں شہداء کے جنازوں میں شرکت سے روک دیا گیا ۔جتنی سیاسی جماعتیں ہیں انھیں اتنی عقل ضرور ہونی چاہیے کہ سیاسی مفاد کے لئے ملکی مفاد کو داؤ پر نہ لگائیں یہ سب باتیں ہو گئیں اور اس کے بعد خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت نے امریکن سفیر کا ریڈ کارپٹ استقبال کیا اور 36 ایمبولنس گاڑیاں تحفے میں لیں لیکن سمجھ نہیں آتی کہ پوری تحریک انصاف اپنے قائد سمیت کیا پاکستان کے عوام کو جاہل، بیوقوف اور عقل سے پیدل سمجھتے ہیں کہ امریکن سفیر سے گاڑیاں لینے کے اگلے ہی دن تحریک انصاف کی ایک رہمنا نے ٹویٹ کر دیا کہ امریکن سفیر کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے حساس علاقوں کا دورہ کروا کر رجیم چینج آپریشن کے حوالے سے امریکہ کا ایک اور مطالبہ پورا کیا گیا ۔ اب اس طرح کی باتوں پر اس دور میں ماسوائے جاہلوں کے اور کون یقین کرے گا اس لئے کہ ستر کی دہائی کے اوائل کا واقعہ ہے کہ روسی صدر کو امریکن صدر نے ایک تصویر دکھائی جس میں وہ کریملن میں بیٹھے ہوئے تھے اور تصویر اتنی صاف تھی کہ گھاس پر شبنم کے جو قطرے تھے وہ بھی نمایاں تھے روسی صدر نے کہا کہ یہ تصویر آپ کو کہاں سے ملی تو امریکن صدر نے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ٹانگ پر ٹانگ رکھی اور کہا کہ یہ تصویر سیٹلائٹ سے لی ہے قارئین یہ بات کم و بیش 50 سال پرانی ہے اور گذرے پچاس سالوں میں پلوں سے بہت زیادہ پانی گذر چکا ہے تو50 سال پہلے اگر خلا سے جو سیٹلائٹ اس قدر بہترین تصویر لے سکتا ہے کہ جس میں گھاس پر شبنم کے قطرے تک واضح نظر آئیں اور جو آج کے دور میں اس قابل ہوں کہ ڈرون حملہ میں سیٹلائٹ کی مدد سے زمین پر رینگنے والے لال بیگ کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں تو وہ اس علاقہ کے جائزہ کے لئے ہیلی کاپٹر کا سہارہ لیں گے ظاہر ہے کہ انھوں نے ایک محدود سی پرواز کی ہو گی اور فوٹو سیشن کے بعد واپس آ گئے ہوں گے لیکن اس پر بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنی ضروری سمجھی گئی جو کسی طور ملکی مفاد میں نہیں تھی ۔
اصل بات یہ ہے کہ اس وقت تحریک انصاف والوں کی حالت اس بندے کی ہے کہ جسے اس کے والدین نے انتہائی پیار محبت اور لاڈلے پن کے ساتھ پالا ہو لیکن ماں باپ کے بے جا لاڈ پیار سے جب بگاڑ ایک حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو آپ نے یہ منظر کئی فلموں میں دیکھا ہو گا کہ پھر جب ایک مرحلہ پر باپ اس کو تھپڑ مارتا ہے تو چونکہ یہ سلوک اس کے ساتھ پہلی مرتبہ ہوتا ہے تو وہ سب کو چاروں طرف حیران نظروں سے دیکھتا ہے کہ یہ اس کے ساتھ کیا ہو گیا۔ 2011 میں جنرل شجاع پاشا کی آشیر باد کے ساتھ جلسہ کے بعد عمران خان کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پورا کیا گیا لیکن بات جب حد سے گذری تو پھر فلموں کے باپ کی طرح تھپڑ تو نہیں البتہ نکے کے ابا نے فقط ہلکی سی چپت رسید کی تو اس وقت سے نکا اور نکے کی جماعت بد حواسی میں ہر ایک کو مارنے دوڑ رہے ہیں دوسری بات جب شروع دن سے عمران خان اور تحریک انصاف کو ریاستی تحفظ کی چھتری مل گئی تو ان کی ذہنی کیفیت بھی امریکہ جیسی ہو گئی کہ جو دنیا سے الگ تھلگ یہ سمجھتا تھا کہ وہ دوسروں کے ساتھ جو چاہے کر لے لیکن وہ دنیا سے دور محفوظ ہیں لیکن جب 9/11 ہوا تو وہ بھی اپنے حواس کھو بیٹھے اور انھوں نے افغانستان کو کھنڈر بنا ڈالا اور تحریک انصاف اور ان کے قائد بھی یہ چاہتے ہیں کہ قطع نظر ملک و قوم کے مفاد کے جو راستے میں آئے اس نیست ونابودکر دو اگر کوئی تحریک عدم اعتماد پیش کرے تو سازشی ملک دشمن غدار اور جو ان کا ساتھ دے وہ بھی غدار اگر الیکشن کمیشن تمام شواہد اور ناقابل تردید ثبوتوں کی موجودگی میں 8 سال کیس کو لٹکانے کے بعد ان کے خلاف فیصلہ دے تو وہ بھی دشمن یعنی جو ساتھ ہے اس کے سارے گناہ معاف اور جو ساتھ نہیں اس پر کچھ اس طرح ناکردہ گناہوں کا بوجھ ڈال دو کہ وہ آپ کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جائے ۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ایف آئی اے نے تحریک انصاف کے مختلف رہنماؤں کو تفتیش کے لئے طلب کر رکھا ہے۔ اس میں بھی دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنما خود اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ توشہ خانہ سے گھڑی لی گئی لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اصل قیمت سے کم پر اور اس سب کا ریکارڈ موجود ہے کہ کئی چیزیں مفت میں لی گئیں اور یہ کیس دیگر کیسز سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اب ممنوعہ یا فارن فنڈنگ میں بھی خان صاحب عارف نقوی کی منی لانڈرنگ کو تھوڑی سی کہہ کر تسلیم کر چکے ہیں اورممنوعہ فنڈنگ کے متعلق بھی یہ کہہ کر اعتراف کر چکے ہیں کہ سو سو ڈالر پر کیس بنایا گیا ہے حالانکہ ایک سو پچاس کروڑ بنتے ہیں اس کے علاوہ فرح گوگی کے گذشتہ تین سالوں میں معمول سے زیادہ اثاثوں کا دفاع بھی کر چکے ہیں کہ کنسٹرکشن کے کاروبار میں بہت منافع ہے اب اگر ہر بات کا اعتراف بھی عمران خان کر رہے ہیں اور اس کے باوجود اگر دھونس دھمکی سے یہ کہیں کہ ان کے سارے گناہ معاف اور عوام بھی انھیں صادق اور امین تسلیم کریں تو عرض ہے کہ ہر کوئی اب ثاقب نثار تو نہیں ہوتا اور پھر عوام کوئی ذہنی غلام ہیں کہ ٹھوس ثبوتوں کی موجودگی اور خان صاحب کے اعتراف کے بعد بھی انھیں صادق اور امین مانتے رہیں ۔