لاڑکانہ سے سہیل چانڈیو نے چند ایک سوالات ارسال کیے ہیں۔ سوال کرنے والا سائل ہوتا ہے، آفرین ہے ایسے سائل پر جو مستقم اور مستقل مزاج ہو۔ سچ ہے ایسا سائل ہی اپنے مسؤل سے داد پاتا ہے۔ درجنوں سے زاید مرتبہ اس نوجوان نے مجھے یاد دہانی کرائی کہ وہ اس سوال کے جواب کا منتظرہے۔ تاخیر اور طویل انتظار نے اسے مایوس نہیں کیا۔ انتظا ر شاید ایک باطنی تطہیر کا عمل ہے۔ دمِ تحریر‘ اس نوجوان کے انتظار سے مجھے اپنی نوجوانی کے زمانے کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ واقعہ یوں ہے کہ ہم نوجوانی کے عالم میں دانشورانہ سیر سپاٹے کی لت کا شکار تھے، ایک دن حضرت واصف علی واصفؒ کے درِ دولت پہ حاضری ہوئی، آپؒ کے ساتھ ملاقات کے ابھی ابتدائی ایام تھے۔ آپؒ کے سامنے والی کرسی پر گھنگھریالے چاندی لیے بالوں والے ایک صاحب تشریف فرما تھے۔ آدابِ محفل ابھی سیکھ نہیں پایا تھا، میں ہلکی سی دستک دے کر دھڑام سے مہمان کے ساتھ والی کرسی پر براجمان ہو گیا۔ آپؒ نے اپنی گفتگو روک دی، اور اُن صاحب کی طرف جنبشِ ابرو سے اشارہ کرتے ہوئے مجھے کہا، انہیں جانتے ہو؟ میں نے بغور دیکھتے ہوئے کہا، جی! جانے پہچانے لگ رہے ہیں، چہرے مہرے سے پکے شاعر معلوم ہوتے ہیں۔ تعارف کراتے ہوئے کہنے لگے، یہ ذوالفقار تابش ہیں۔ پھر میری طرف متوجہ ہو کر کہا، نوجوان! تم ذرا باہر دھوپ کا لطف لو، سردیوں کے دن تھے۔ ہم ذرا کچھ بات کر لیں۔ چنانچہ مجھے کمرے سے باہر کھڑا کر دیا گیا۔ اب میں باہر کھڑا اندر ہی اندر تلملارہا ہوں کہ مجھ ایسے” دانشور " کی بے عزتی کردی۔ بیس یا پچیس منٹ تک میں گلشنِ راوی والے گھر میں آپؒکے دفتر کے باہر گیٹ کے قریب دھوپ میں کھڑا انتظار کرتا رہا۔ کبھی دل میں وسوسہ دَر آئے کہ کہیں مجھے کھڑا ہونے کا کہہ کر آپ ؒ بھول تو نہیں گئے، کبھی باغیانہ سوچ سر اٹھائے کہ بس اب بہت ہوگئی، موٹر سائیکل سٹارٹ کرتا ہوں اور واپس چلا جاتا ہوں۔ اتنے میں آپؒ تا بش صاحب کو الوداع کہنے کیلئے باہر تشریف لائے، اور مجھے وہیں کھڑا دیکھ کر کہنے لگے، دیکھا! ہم نے تمہیں باہر انتظار کرنے کو کہہ کر دو کام کرلیے، ایک یہ کہ ہم نے ا پنی بات مکمل کر لی اور دوسرا یہ کہ تمہارا ٹیسٹ بھی ہو گیا، اگر تم انتظار نہ کرتے اور چلے جاتے تو…… بس چلے جاتے!! تابش صاحب کو رخصت کرنے کے بعد آپؒ مجھے اندرلے آئے اور باتوں باتوں میں میرے دل میں گذرنے والی کیفیات کو بیان کر دیا۔
نوجوان کا سوال ہے کہ حضرت واصف علی واصفؒ کی کتاب”قطرہ قطرہ قلزم“ کے مضمون”فراق و وصال“ میں آپؒ نے ایک جملہ قلم بند کیا ہے”محبت کا سجدہ‘ انسان کو ہزار سجدوں سے نجات دیتا ہے“ یہاں سوال یہ پیدا ہو رہا ہے
کہ وہ مسلمان جو پانچ وقت مساجد میں نماز پڑھتے ہیں‘ کیا وہ محبت کا سجدہ نہیں کرتے؟ یہ سوال انتہائی نازک بھی ہے اورانتہائی اہم بھی۔ اس سوال میں طالب علم نے یہ مفروضہ قائم کر لیا ہے کہ محبت کا سجدہ کرنے والاگویا فرض نماز کے بار بار سجدے کرنے سے فارغ باشد ہو جاتا ہے۔ یہ سوال اس مفروضے پر قائم ہے کہ طریقت گویا شریعت کا متبادل ہے، محبت گویا فرض عبادات سے سبکدوش کر دیتی ہے، سجدہئ شوق گویا عبادت کے سجدے کو کفایت کر جاتا ہے۔ اگر سوال درست ہو جائے تو جواب سوال کے اندر ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے بڑی وضاحت سے بیان کر دیا ہے کہ طریقت دراصل شریعت بالمحبت ہے۔ فرائضِ شریعت کو اگر محبت سے بجا لایا جائے تو یہی طریقت ہے۔ یاد رہے کہ احادیث مبارکہ میں تین درجے بیان کر دیے ہیں، اسلام، ایمان اور احسان۔ تصوف درجہ احسان ہے۔ یوں سمجھ لیا جائے کہ تصوف گویا تیسری منزل ہے، اگر پہلی اور دوسری منزلیں یعنی اسلام اور ایمان کو بلڈوز کر دیا جائے تو تیسری منزل کی تعمیر؟ چہ معنی دارد؟ ناممکن ہے کہ اگر اسلام اور ایمان کے درجات کی نفی کرنے کے بعد کوئی مقامِ احسان پر متمکن ہو سکے۔ بابِ تصوف کے جدِ امجد سید ہجویر حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش اپنی شہرہ آفاق کتاب”کشف المحجوب“ میں فرماتے ہیں کہ مجھے حیرت ہے اس شخص پر جو فرائض ترک کر دیتا ہے اور نوافل کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔
دراصل ہر فعل کا ایک محرک ہوتا ہے۔ اگر محرک کی کنہ تک پہنچ جائیں تو ہم اس فعل کی ہیئت ِ اصلی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ عام طور پر ہمارے اعمال و افعال کسی خوف پر مبنی ہوتے ہیں یا پھر کوئی لالچ اِن کا محرک ہوتا ہے۔ نفسیات کے عام کلیے کے مطابق ہمارے کسی فعل کا سبب خود کو کسی تکلیف سے دُور کرناہوتا ہے یا پھر کسی لذت سے ہمکنار ہوناہوتا ہے۔ جو شخص دل کی دنیا پر یقین نہیں رکھتا، کسی باطنی جہت کو تسلیم نہیں کرتا‘ اُس کے نزدیک زندگی میں انسان کو حرکت میں لانے والے محرکات کا ماخذ صرف اس کی جبلت ہے، اس جبلت کے دو اہم پہلو خوف اور لالچ ہی دو بنیادی محرکات ہیں۔ خوف کسی ممکنہ تکلیف کے پہنچے کا بھی ہو سکتا ہے اور لالچ میں تمام انفرادی اور اجتماعی لذات شامل ہیں۔ جو شخص انسانی اعمال کے محرک کو صرف اور صرف اس کی جبلت جانتا ہے‘ وہ کسی ماورائی عقیدے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اُس کی جولان گاہ صرف مادی کائنات ہے۔ وہ انسان کو مادّے کی ایک ترقی یافتہ قسم تصور کرتا ہے اور انسان کو مادے پر متصرف ایک قوت سمجھتا ہے، گویا اُس کی دانست میں انسان‘مادّے کو اور اور مادّہ انسان کو بدل رہا ہے۔
اس کائنات میں باطنی شعور رکھنے والے ایک اور جہان بھی دریافت کرتے ہیں، وہ اسے کبھی دل کہیں گے، کبھی سرّ، کبھی باطن اور کبھی خیال کے نام سے موسوم کریں گے۔ سرتا سر مادّی شعور میں گھرا ہوا شخص جب کسی مذہب کو قبول کرتا ہے تو اِسے وہاں بھی مادّی محرکات نظر آتے ہیں، وہ دینی شخصیات کو تاریخ کے جبر نتیجہ سمجھتا ہے، باطنی نظام سے ناآشنا ہونے کے سبب‘ وہ دین کو محض ایک نظام جزا و سزا کے طور دیکھتا ہے۔ وہ بالعموم عبادت کرتا ہے کسی جزا اور انعام کے لالچ میں یا پھر کسی ممکنہ تعدیب و سزا کے خوف سے۔ اس کے برعکس باطنی جہت سے تمسک رکھنے والا شخص دل اور پھر رموزِ دلبری سے آشنا ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی میں ہمارے عمل کا اصل محرک قلب میں موجزن خیال ہونا چاہیے …… اور خیال اپنی اصل میں محبوب کا خیال ہوتا ہے۔ وہ محبوب کے چہرے کو قبلہ تصور کرتا ہے،تمام مناسکِ عبودیت میں اس کی واحد نیت قربت ِ محبوب ہوتی ہے، وہ محبوب کی ذات کی طرف رجوع کرتا ہے۔ صفات کی دنیا اسے اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، کوئی خوف اور لالچ اس کے عمل کا محرک نہیں بن پاتا۔ جادہئ شوق اُس کی سواری ہوتی ہے…… اور یہ خوب برق رفتاری سواری ہے۔ وہ شوق کا دیا جلاتا ہے، سوزِ دروں میں خود جلتا ہے اور اپنے ہم خیالوں کو مثل ِ پروانہ جلاتاہے۔ اِس کا سجدہ‘ سجدہئ شوق ہے،شوق محبوب کا ہوتا ہے، اور محبوب ایک ہوتا ہے، واحد ہوتا ہے، اس کی جیینِ شوق جب درِ محبوبؐ پر جھکتی ہے تو پھر دَر دَر کے سجدوں سے نجات پا لیتی ہے۔
ظاہری اور اجتماعی رسوم ِ عبادات میں منافق، مسلمان اور مومن تینوں بظاہر یکساں نظر آتے ہیں۔ شاید منافقین کے لیے اجتماعی عبادات میں جوش وخروش دکھانا اِن کی مجبوری بھی ہے کہ دکھاوے کا موقع تنہائی میں تو میسر نہیں آ سکتا۔ صرف قلب میں موجزن خیال کی لہر ہے جو منافق، مسلمان اور مومن میں تفریق کرتی ہے۔ منافق کا سجدہ‘دکھاوے کا سجدہ ہے، مسلمان کا سجدہ‘ تسلیم کا سجدہ ہے، اور مومن کا سجدہ‘ سجدہ ئشوق ہے۔
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے کسی نے دریافت کیا کہ دین کی کتنی اقسام ہیں؟ آپؑ نے فرمایا ”لوگوں کے دین کی تین قسمیں ہیں‘ خوف کا دین، لالچ کا دین او رمحبت کا دین، اور دراصل یہ دین کی نہیں بلکہ لوگوں کی اقسام ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ اللہ کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ اُنہیں خوف ہے کہ وہ کہیں جہنم میں نہ ڈال دئیے جائیں۔دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں‘ جو جنّت کے لالچ میں خْدا کی عبادت کرتے ہیں، اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنہیں نہ تو جہنم کی آگ کا خوف ہے، نہ ہی جنّت کا لالچ ہے بلکہ وہ اللہ کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ واقعی عبادت کے لائق ہے۔ اُس شخص نے پوچھا کہ اِن تینوں میں سے بہتر کون ہے؟آپؑ نے فرمایا ”سب سے بہتر وہ ہیں جو محبت کے دین پر ہیں کیونکہ وہ صاحبانِ معرفت ہیں“۔