شہباز شریف پنجاب کی ایک بڑی سیاسی شخصیت ہیں۔ لیکن اپنے بھائی کی وجہ سے ان کی پارٹی میں ہمیشہ دوسرے نمبر کی پوزیشن رہی جو انھوں نے خوشی سے قبول کی۔ 1950 میں لاہور میں پیدا ہونے والے شہباز شریف نے اسی شہر سے گریجویشن کی اور اپنے والد میاں شریف کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے۔ ان کے بڑے بھائی نواز شریف نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو والد کے حکم پر وہ ان کے سب سے قریبی ساتھی ٹھہرے۔ انیس سو اٹھاسی میں جب نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو شہباز شریف لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر منتخب ہو گئے۔ نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے تو شہباز شریف پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ پہلی شریف حکومت کی برطرفی کے بعد نواز شریف قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے تو چھوٹے بھائی شہباز شریف نے پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ سنبھالا۔ نواز شریف دوسری بار دو تہائی اکثریت لیکر وزیر اعظم بنے تو شہباز شریف نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ سنبھالی۔ یہ وہ دور تھا جب نواز شریف شادیوں میں کھانے پر پابندی اور ہندوستان سے بہتر تعلقات اور ایٹمی دھماکوں جیسے فیصلے کر رہے تھے اور شہباز شریف پنجاب میں خود کو ایک اچھا منتظم ثابت کرنے میں کوشاں تھے۔ اقتدار کے ایوان ہوں یا جلاوطنی کی صعوبتیں شہباز شریف ہر قدم اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے ساتھ ثابت قدم رہے ہیں۔ شریف خاندان کم وبیش پچھلے 37 برس سے کارزار سیاست میں ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں میں لگ بھگ 10 برس وزارت عظمیٰ پر تین مرتبہ اور 19 برس پنجاب کی وزارت اعلیٰ چار مرتبہ مسلم لیگ ن کے حصے میں آئی۔ یہ قدرت کی شریف خاندان پر خاص مہربانی ہے کہ انھیں بار بار ملک کی خدمت کا موقع ملتا رہا ہے۔ جب میاں نواز شریف کو اقامہ رکھنے اور بیٹے سے تنخواہ لینے کے معاملہ پر تاحیات نااہلی اور دیگر کیسز میں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا تو بھی شہباز شریف نے بڑے بھائی کو اپنا قائد ہی مانا۔ کبھی آگے
بڑھ کر نمبر ون پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ نہ صرف ایک بھائی کی بھائی اور پارٹی سے وفا کی اعلیٰ مثال ہے بلکہ ایک مستقل مزاج شخص ہونے کی دلیل بھی ہے۔ میاں شہباز شریف پاکستان کے سب بڑے صوبے کے تین مختلف ادوار میں لگ بھگ 13 برس تک وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ ان کے بارے میں ایک بات مسلم لیگ ن کی پارٹی اور عوام میں راسخ ہے کہ وہ ایک بہت اچھے منتظم ہیں۔ پنجاب میں ادارہ جاتی اصلاحاتی عمل میں بہترین ریفارمسٹ کے طور پر ان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پنجاب میں ہسپتالوں، سڑکوں، تعلیم سمیت بے شمار شعبوں میں شہباز شریف کے انقلابی اقدامات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ میٹرو بس اور اورنج لائن جیسے شاہکار منصوبے شہباز شریف کی فراصت اور انتظامی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے میاں شہباز شریف ایک ضرب المثل اور میعار بن چکے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد کی جانب سے عمران خان پر بطور وزیر اعظم عدم اعتماد کامیاب ہو چکی ہے۔ پچھلے ساڑھے تین برس میں پاکستان میں معیشت، خارجہ پالیسی اور ادارے جس نا اہلی کے تجربے سے گزرے ہیں۔ اس نے ہمارے پورے سماجی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عمران خان جس احتساب اور انصاف کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے۔ نئے پاکستان کے جو خواب انھوں نے دکھائے تھے۔ وہ سب خواب ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران ہی ٹوٹ کر بکھر چکے تھے۔ ان کے ووٹر کا دل ٹوٹا ہوا ہے۔ اصل تکلیف ان وعدوں کے ٹوٹنے کی ہے جو ان سے کیے گئے تھے۔ ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر، بہترین صحت، یکساں تعلیم افسوس عمران خان ایک بھی وعدہ نہ نبھا سکے۔ پاکستانی قوم بڑی دلدار قوم ہے۔ یہ ہر اس شخص پر اعتماد کر لیتی ہے جو اس کے دکھ درد مٹانے کی بات کرے۔ لیکن یہ قوم اتنی ہی تیزی سے اس شخص کو نظروں سے بھی گرا دیتی ہے جو ان کے خوابوں سے کھلواڑ کرے۔ آنے والے دنوں میں یہی عمران خان کیساتھ بھی ہونے والا ہے۔ پچھلے ساڑھے تین برس میں آٹا، گھی، چینی، پٹرول اور ڈالر کی قیمتیں دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہیں۔ افراط زر کے باعث عام پاکستانی کی قوت خرید آدھی سے بھی کم ہو گئی ہے۔ ملک کا درمیانہ طبقہ احساس پروگرام کا اہل ہے نہ وہ لنگر خانوں میں جا کر لائن میں لگ کر روٹی مانگ سکتا ہے۔ یقین جانیں میں ذاتی طور پر ایسے کئی خاندانوں کو جانتا ہوں جو سفید پوشی کا بھرم رکھتے رکھتے سڑک پر آ چکے ہیں۔ یہ پاکستان کے اکثریتی طبقے کی کہانی ہے۔ نئے پاکستان کا تجربہ ناکام ہو گیا ہے۔ یقین جانیں کہ اسوقت پوری قوم میں ایک بار پھر ایک امید جاگی ہے۔ وہ پرانے پاکستان میں جا کر پھر سے نئی زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اب قدرت نے میاں شہباز شریف کو قوم کی خدمت کا موقع عطا کیا ہے۔ شہباز شریف پہلے دن سے ہی ایک قومی حکومت کے خواہاں تھے۔ شروع میں یہ آفر تحریک انصاف کو کی گئی کہ آئیں مل کر اس قوم کے مسئلے حل کریں لیکن سابق وزیر اعظم عمران خان پر احتساب کا بھوت سوار تھا۔ عمران خان اپوزیشن پر ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت نہیں کر سکے۔ اب وہ کس منہ سے دوبارہ عوام میں جا کر احتساب کا نعرہ لگائیں گے۔ میاں شہباز شریف کی سابقہ کارکردگی کے پیش نظر عوام کو ان سے بڑی توقعات ہیں۔ لوگ اس وقت بہت تکلیف میں ہیں اور شہباز شریف کو مسیحا کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ میاں شہاز شریف کو اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر فوری طور پر عوامی ریلیف کی حکمت عملی بنانا ہو گی۔ اشیاء خور و نوش، پٹرول اور ڈالر فوری طور پر سستا کیا جائے۔ کرپشن کیخلاف واضح حکمت عملی دیں۔ آج کے بعد کرپشن پر سزائے موت کا قانون پاس کی جائے تاکہ ملک میں حقیقی طور پر شفاف طرز حکمرانی کی داغ بیل ڈالی جائے۔ عدالتی اور پولیس ریفارمز ان کا اولین ایجنڈا ہو تاکہ انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہو سکیں۔ پاکستان کے عوام کی تعلیم صحت اور روزگار کی فراہمی ہر صورت اولین ترجیح رہنی چاہیے۔ میاں شہباز شریف یاد رکھیں کہ یہی عوام ہیں جو اقتدار میں لاتی ہے۔ اگر آج آپ انھیں یقین دلا دیں کہ آپ ان کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں تو پھر وہ اگلے الیکشن میں آپ کو بھاری اکثریت سے جتا کر پورا اقتدار آپ کے حوالے کر دیں گے۔