نیو ہیون: محقیقین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی خود کشی کی شرح میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، ہر سال دنیا بھر میں 7 لاکھ سے زیادہ لوگ اپنی جان لے لیتے ہیں۔ ہر سال 10 ستمبر 2023 کو ڈبلیو ایچ او خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن مناتا ہے جس کا مقصد اموات کی تعداد اور اس کی وجوہات پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پچھلی دو دہائیوں کے دوران امریکا میں خودکشیوں میں تقریباً 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سال امریکا میں تقریباً 50 ہزار لوگوں نے اپنی جان لے لی، ہر 11 منٹ میں ایک موت، جبکہ یہ ملک امیر، ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ شرحوں میں سے ایک ہے۔ برطانیہ میں خودکشی کی شرح امریکہ کے مقابلے میں تقریباً 25 فیصد کم ہے۔
ان اموات کو روکنا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں ہونے والی تحقیق نے تجویز کیا ہے کہ سیاست دان اور صحت عامہ کے اہلکار خود کشیوں کی شرح کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، اور وہ ذہنی صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی میں سرمایہ کاری، اور خود کشی کی روک تھام کے لیے مخصوص کلینکس قاہم کر کے اس عمل کی شرح کو کم کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، 2018 میں سائنس کے جریدے کے محققین نے بتایا کہ ڈنمارک نے خودکشی کے انتہائی خطرناک ذرائع تک رسائی کو محدود کرکے، اور ساتھ ہی خودکشی کے خیالات رکھنے والے لوگوں کے لیے خودکشی کی روک تھام کے مخصوص کلینکس قائم کرکے اپنی خودکشی کی شرح کو نمایاں طور پر کم کیا ہے۔
اب محقیقین نے خود کشی کی روک تھام کے لیے ایک اور تجویز پیش کی ہے جو دیکھنے میں تو غیر متعلق ہو سکتی ہے ؛ ہوا کے معیار کو بہتر بنانا، محقیقین کا کہنا ہے کہ ہوا کے معیار کو بہتر بنا کر لوگوں میں خود کشی کی شرح کو کم کیا جا سکتا ہے۔
2021 میں ییل یو نیورسٹی (Yale University) کے محقق سیولکی ہیو اور ان کے ساتھیوں نے بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی اور خودکشی کی شرح میں اضافے کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آلودہ فضا، دھواں، لکڑی ، جنگل کی آگ سے اٹھنے والا دھواں، تعمیراتی یا صنعتی انڈیسٹریز سے خارف ہونے والی گیس ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، فوسل فیول جلانے اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں خود کشی کی شرح میں اضافہ کرتا ہے۔
یونیورسٹی کالج، لندن کے اسوبل بریتھویٹ کی سربراہی میں کی گئی تحقیق کےمطابق جب ہوا میں آلودگی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے تو خودکشی کا خطرہ معمول کی خودکشیوں کی شرح سے زیادہ ہوتا ہے۔ تحقیق نے اس مفروضے کی بھی تائید کی کہ طویل مدتی فضائی آلودگی ڈپریشن کے امکانات کو بڑھاتی ہے۔
محقیقین کا کہنا ہے کہ پھیپھڑوں میں داخل ہونے والی فضائی آلودگی خون اور پھر دماغ میں آکسیجن کے بہاؤ کو روک سکتی ہے۔ آلودگی دماغ میں سوزش، سیروٹونن میں کمی، اور تناؤ میں اضافہ کرتی ہے جس کے باعث انسان میں افسردگی اور ڈیپریشن میں اضافہ اور نتیجتا ً افراد خود کشی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
اپنی تحقیق میں ہیو اور ان کے ساتھیوں نے یہ بھی کہا کہ گرم دنوں اور خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح کے درمیان بھی ایک اہم تعلق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ خود کشی کی شرح میں اضافہ کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق درجہ حرارت میں 7 سینٹی گریڈ اضافہ خودکشی کی شرح 9 فیصد زیادہ کرتا ہے۔