ایک بار خان صاحب وزیر اعظم تھے میری ون ٹو ون ان کے ساتھ ایک میٹنگ میں اچانک ان کا موڈ میری ایک بات پر سخت خراب ہو گیا بطور وزیر اعظم جن بداخلاقیوں کا مظاہرہ وہ کر رہے تھے اور مسلسل کر رہے تھے میں انہیں یہ سمجھانے کی ناکام کوششیں کر رہا تھا ”آپ ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں“ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے بہت متاثر ہیں‘ جو کہ بطور ایک سچا مسلمان ہونا بھی چاہیے‘ آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ”ارشاد پاک“ یاد ہے؟ ”روز قیامت میرے سب سے قریب وہ ہو گا جس کے اخلاقیات بلند ہوں گے“ میں نے یہ بھی عرض کیا ”دل کے اچھے کو ہم نے کیا کرنا ہے اگر زبان کا کوئی اچھا نہ ہو“ ہمارے ہاں ہر کوئی یہ کہتا ہے فلاں شخص دل کا بہت اچھا ہے‘ ارے بھائی اسے زبان کا بھی اچھا ہونا چاہیے یا نہیں؟…… میرا خیال تھا بات بات پر ریاست مدینہ کا ذکر کرنے والا یہ حکمران میری یہ گزارشات سن کر خوش ہو گا مگر وہ ناراض ہو گئے اور چالیس منٹ کی طے شدہ میٹنگ چودہ منٹ بھی نہ چل سکی…… خان صاحب کو اللہ پاک نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہوا ہے کہتے ہیں تکبر اللہ کو پسند نہیں‘ قدرت نے خان صاحب کو اس معاملے میں بھی استثنیٰ دے رکھا ہے‘ بے شمار معاملات میں وہ تکبر کی انتہاؤں کو چھو رہے ہوتے ہیں وہ تکبر کو کوئی خرابی نہیں اپنی بے شمار ”خوبیوں“ میں سے ایک ”خوبی“ سمجھتے ہیں‘ قدرت نے انہیں صحت کی دولت سے بھی سرفراز فرمایا ہوا ہے بظاہر انہیں سوائے اس کے کوئی ”بیماری“ نہیں وہ ”منہ کی بواسیر“ میں مبتلا ہیں‘ بواسیر ایک قابل علاج مرض ہے‘ لیکن خان صاحب کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس یقین میں مبتلا ہیں کم از کم منہ کی بواسیر کا کوئی علاج نہیں ہے اور اس صورت میں تو یہ بالکل لاعلاج ہے کہ کوئی اس کا علاج کروانا ہی نہ چاہے‘ خان صاحب کی اس ”بیماری“ کا ہمیں اس وقت بھی پتہ تھا جب ہم ان کی اندھا دھند تقلید کر رہے تھے اور اس لئے کر رہے تھے ہم ان کی ”تبدیلی“ کے جھانسے میں آئے ہوئے تھے‘ ہم یہ سمجھتے تھے یہ شخص نجات دہندہ ثابت ہوگا‘ یہ جب اقتدار میں آئے گا ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی‘ تھانے‘ کچہریوں میں ہونے والے ”کاروبار“ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹھپ ہو جائیں گے‘ لوگوں کو بلاتفریق انصاف ملے گا‘ صحت اور تعلیم کے معاملات اس حد تک بہتر ہوجائیں گے ان دوشعبوں میں کئی ترقی یافتہ ممالک کو ہم پیچھے چھوڑ جائیں گے‘ انتقام اور کرپشن کی سیاست کا مکمل طور پر خاتمہ ہو جائے گا‘ لوگوں کے بگڑے ہوئے اخلاقیات کو ٹھیک کرنے میں وہ اہم اور بڑا مؤثر کردار ادا کریں گے‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے آنے سے جنم جنم کی دو میلی سیاسی جماعتوں نون لیگ اور پیپلزپارٹی سے ہمیں نجات مل جائے گی‘ سبز پاسپورٹ کی اتنی عزت ہو گی دنیا بھر کے ایئرپورٹس پر بیٹھا ہوا امیگریشن کا عملہ جیسے ہی سبز پاسپورٹ دیکھے گا اٹھ کر سلیوٹ کرے گا‘ افسوس خان صاحب کے پونے چار سالہ اقتدار میں یہ سب خرابیاں دور کیا ہونی تھیں مزید بڑھ گئیں۔ اس ضمن میں خان صاحب کے ”پجاری“ یہ جواز پیش کرتے ہیں ”ستر برسوں کا گند پونے چاربرسوں میں کیسے ٹھیک ہو سکتا تھا؟“ یقین کریں یہی ہم خان صاحب سے کہتے تھے وہ ہماری اس بات کا سخت برا مناتے تھے ایک بار میں نے بڑے ادب سے ان سے گزارش کی ”خان صاحب یہ جو آپ نے سو دنوں میں سب کچھ ٹھیک کرنے کا تازہ تازہ نعرہ لگایا ہے آئندہ اس سے گریز کریں‘ کیونکہ ستر برسوں خصوصاً گزشتہ تیس چالیس برسوں کا گند آپ سو دنوں میں ٹھیک نہیں کر سکتے“ انہوں نے برا سا منہ بنا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا ”پاگل یہ سو دن تو میں نے بہت زیادہ دیئے ہیں‘ وزیراعظم یا لیڈر ایماندار ہوتو یہ گند سو گھنٹوں میں ٹھیک ہو سکتا ہے“…… میں اس کے جواب میں ان سے ایک اور بات کرنا چاہتا تھا مگر مراد سعید آ گئے اور میں نے سوچا مجھے اب مزید یہاں نہیں رہنا چاہیے۔ میں ان سے کہنا چاہتا تھا ”ایماندار“ لیڈر کے طور پر آپ اپنی پارٹی سے گند ختم نہیں کرسکتے تو ایماندار وزیراعظم کے طور پر اپنے ملک سے کیسے سو دنوں میں ختم کر لیں گے؟؟؟ گند ختم کرنا تو دور کی بات ہے بطور وزیراعظم مزید گند ڈال کر وہ چلے گئے‘ اور مزید گند اب وہ اس غصے میں ڈالتے جا رہے ہیں انہیں اقتدار سے الگ کیوں کیا گیا؟ جن لوگوں کو ان سے پہلے اسی طریقے سے اقتدار سے الگ کیا گیا تھا وہ ا ن کے نزدیک بالکل درست تھا انہیں صرف اپنا دکھ ہے‘ اس دکھ میں وہ اس قدر ”باؤلے“ ہو چکے ہیں ہر کسی کو کاٹنے کو دوڑتے ہیں‘ کوئی ادارہ ان کے زہر سے محفوظ دکھائی نہیں دے رہا کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی ان کا کردار بازار حسن کی اس رہائشی جیسا ہو چکا ہے جو بڑے فخر سے بتاتی ہے کون کون اس کے پاس آتا رہا ہے اور کیا کیا کرتا رہا ہے؟ وہ اس وقت سخت غصے میں ہیں آپ ان کا چہرہ دیکھیں کرسی چھن جانے کا جتنا کرب ان کے چہرے پر دکھائی دیتا ہے شاید ہی کرسی چھن جانے کا ایسا کرب کسی اور کے چہرے پر کبھی دکھائی دیا ہو یہ کرب یقیناً جائز ہے کہ انہیں اپنے اقتدار کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی مگر انہوں نے بھی تو اس اٹل حقیقت کو ہر گز پیش نظر نہیں رکھا جو قوتیں اقتدار میں لا سکتی ہیں وہ اقتدار سے ہٹا بھی سکتی ہیں‘ خان صاحب یہ سمجھتے رہے ان قوتوں کوانہیں صرف اقتدار میں لانے کا حق تھا اب وہ قوتیں ان کے نشانے پر ہیں جو پہلے ان کی ”نشانی“ تھی‘ خان صاحب جو کر رہے ہیں یا جو کہہ رہے ہیں‘ مان لیتے ہیں وہ صرف کرسی چھن جانے کی وجہ سے ہے‘ دوسری طرف یہ سوچ بھی بڑی تیزی سے عوام کے دل و دماغ میں پھل پھول رہی ہے کہ جو کچھ ستر برسوں سے دوسرا فریق کر رہا ہے یا کہہ رہا ہے‘ وہ کس حد تک درست ہے؟ اس ملک کو اس کی جو سزا ملی وہ ایک الگ المناک داستان ہے‘ مگر دوسرے فریق کی اپنی جو عزت روز بروز خاک میں ملتی جا رہی ہے اس کا ازالہ کون کرے گا؟ جو فیصلے آنے والے دنوں میں متوقع ہیں مجھے ان کے نتائج کچھ اچھے نکلتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے‘ خدشہ ہے کسی کے منہ کی بواسیر کا علاج کرتے کرتے کوئی خود ایسی بیماری میں مبتلا نہ ہو جائے جو جان لیوا ثابت ہو!!