جناب شعیب بن عزیز کا حسب روایت ایک نیالور معنی خیز انداز کا یہ شعر آج کل پھر ادبی حلقوں میں گردش کر رہا ہے جیسا کہ ان کے بہت سے ایسے ہی اشعار پہلے ہی لوبی حلقوں میں گردش کے ریکارڈ توڑ چکے ہیں۔
ہم نیند کے شوقین زیادہ نہیں لیکن
کچھ خواب نہ دیکھیں تو گزارہ نہیں ہوتا
ویسے اگر شعر کی گہرائی میں جائیں تو شعیب بن عزیز کو اب مزید خواب دیکھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہی کیونکہ حال ہی میں ان کو مزید ترقی نصیب ہوئی ہے۔ پنجاب حکومت کے ہر دل عزیز افسروں میں جہاں جی ایم سکندر کا نام ہر دور میں شامل رہاو ہیں چند مہینوں کا پیریڈ نکال کر شعیب بن عزیز بھی ہمیشہ سے مین سٹریم میں رہے ہیں۔ ”اب پھر پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ہیں۔۔۔اور جی ایم سکندر تو ان کی محفلوں میں نظر آئے۔۔۔ شعیب بن عزیز بھی ان کی افسروں کی نہ سہی۔۔۔ دانشوروں کی ٹیم کا حصہ ضرور ہونگے۔۔۔ جیسے سیاستدانوں میں مولانا فضل الرحمن، شیخ رشید احمد وغیرہ وغیرہ ہمیشہ ”مین سٹریم“ میں رہے ہیں۔ یقینا مین سٹریم میں رہنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی حکومت وقت کا ہر وقت و فادار ہو اور وفاداری میں نہ دن دیکھے نہ رات۔ ہر بات میں ”ہاں کا عمل دخل کر دے۔ اور”ناں“ کا لفظ اپنی ڈکشنری سے نکال دے جس طرح ہمارے معاشرے میں ”سچ“ غائب اور ”جھوٹ“ حاضر ہے۔ سوری میں کچھ سرکاری ناموں میں کچھ سیاسی نام بھی شامل کر بیٹھا جس کا مجھے افسوس ہے اور میں کافی شرمندگی سی محسوس کر رہا ہوں۔ پہلے میں نے سوچا کہ یہ چند فقرے اپنی تحریر سے کاٹ دوں مگر میں پریشان ہوں کیونکہ میں اپنی تحریر کو نہ تو دوبارہ سے ٹھیک کرنے کی کوشش کر سکتا ہوں اور نہ ہی میں کچھ غیر ضروری فقرے اد ھر ادھر کر سکتا ہوں۔ ورنہ میری سنجیدہ تحریر لطیفہ بن کر رہ جائے گی اور مزاحیہ تحریر مرثیہ ہو جائے گی۔ اور چونکہ میں اپنی تحریر میں سنجیدگی طاری نہیں کر سکتا اس لئے جو کہہ رہا ہوں کہہ دیا۔ ایسی عادتوں کے نقصانات بھی ہوتے ہیں مگر عادتیں بد لنا بھی تو مشکل کام ہے؟بات ایک معنی خیز شعر سے شروع ہوئی تھی اور چلتے چلتے وفاداری کی اعلیٰ مثالوں تک پہنچ گئی۔
جنرل مشرف (ر) سخت علیل ہیں لیکن بلدیاتی الیکشن پر انہوں نے خاص توجہ دی تھی۔ آج تو ہمیں یاد نہیں کہ کون ہمارا ناظم ہے ہمیں تو عدالتیں یاد ہیں عمران خان شیخ رشید کی توہین آمیز تقریریں یاد ہیں یا Camera Trick کے ذریعے بنی عمران کے جلسوں کی تصویریں یاد ہیں۔ عوام تک سیاست کی رسائی صرف چینلز کے ذریعے ہے اور بس۔
خواب دیکھنا ہر انسان کی مجبوری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم لوگ خواب صرف رات کو دیکھیں دن میں خواب دیکھنا اچھا مشغلہ نہیں۔ سنا ہے صبح کاذب کے وقت جو خواب دیکھا جائے وہ سچاہو تا ہے مگر افسوس کہ ہم لوگ تو آنکھیں کھول کر بھی خواب دیکھتے ہیں اور پھر خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا کاش ہر خواب پورا ہو۔
جب جنرل مشرف نے خواہش کی کہ اقتدار نچلی سطح تک پہنچ رہا ہے تو ہمارے محلے کے قصائی بھائی نے خواب دیکھا کہ میں ناظم بن کر نچلی سطح تک آنے والا اقتدار کیچ کر لوں۔ انہوں نے خواب ہمیں سنایا اور تعبیر پوچھی ہم نے طریقہ کار سمجھایا اور یہ بھی فرمایا کہ اس خوفناک (عوام کیلئے خواب کی عنقریب تم تعبیر دیکھ لو گے۔ ہم نے الیکشن میں ایڑی چوٹی کے زور لگائے ہر طرح کے گھوڑے دوڑائے جہاں جہاں جو جو تحفے پہنچ سکتے تھے پہنچائے اور خوب اپنے موبائل پر نمبر گھمائے لوگوں نے قیمے والے نان اڑائے اور قصائی بھائی نے خوشی کے شادیانے بجائے کہ الیکشن میں وہ یو سی 420کے ناظم منتخب ہو گئے۔ آپ حیران ہوں گے کہ مابدولت نے ”قصائی بھائی“ کی اس الیکشن مہم میں اتنے پاپڑ کیوں بیلے۔ ان کو نہایت کامیاب کروانے کے لئے تو جناب حیران نہ ہوں۔ آج کل کوئی ہے جو بغیر کسی لالچ کے کسی کے ساتھ چلے۔ سو جناب ہمارا بھی ایک لالچ تھا اس کے باعث ہم نے قصائی بھائی کو جتوانے اور عوامی سطح کا لیڈر بنوانے کے لئے ہر حربہ استعمال کر ڈالا۔ آپ حیران نہ ہوں ہماری لالچ ملاحظہ ہو۔ پچھلے دنوں میری اور قصائی بھائی کی ہلکی سی سر عام لڑائی بھی ہوئی اور ہم قصائی بھائی کے پھٹے پر گتھم گتھا بھی ہوئے۔ ہوا یوں کہ جب جنرل مشرف نے اعلان کیا کہ اقتدار نچلی سطح تیک منتقل کر دیا جائے گا توہمارے محلے کے کیبل آپریٹر نے کہا خان جی آپ کا بچپن جوانی وغیرہ سب اس علاقے میں گزرا ہے اور لوگوں کو چکر دینے کے فن سے بھی آپ آشنا ہیں۔ اگر مجھے الیکشن میں ناظم کامیاب کر واد یں تو ساری عمر کے لئے آپ کو کیبل کی فیس معاف۔ میں نے یہ آفر وہیں بغیر شکریہ کے واپس کر دی کیونکہ والد صاحب گھر میں کیبل لگنے کے خلاف ہیں جس طرح دادا جان گھر میں ٹیلی ویژن لانے کے خلاف تھے اور ہم سب بچے شام کو چھ بجے سے لے کر رات ساڑھے دس بجے تک ہمساے شیخ باقر کے گھر جاکر ٹیلی ویژن دیکھا کرتے تھے۔ جہاں مجھے آج تک یاد ہے اور غصہ بھی ہے کہ شیخ باقر بدایونی کے بچے ساڑھے چھ بجے چائے کے ساتھ کیک رس کھایا کرتے تھے اور ہمیں پوچھا تک نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ اس نواب صاحب کے بچے خود دری پر بیٹھتے اور ہم زمین پر۔ ایک دفعہ دسمبر کے مہینے ان کی اس سازش کی وجہ سے مجھے نمونیہ بھی ہو گیا تھا۔ شکر ہے وہ نمونیہ تھا۔ ڈینگی بخار نہیں تھا ورنہ……؟ جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو اندر سے اداس بھی ہوں کیونکہ پرسوں پر ایک فرسٹ کزن لاہورمیں ڈینگی بخار کے ہاتھوں چالیس سال کی عمر میں فوٹ ہو گیا۔ محض تین دن میو ہسپتال داخل رہنے کے بعد امید ہے اگلے بجٹ میں حکومت ڈینگی مچھر کو مارنے کے لیے سپرے منگوانے کی منظوری دے دے گی۔ اس وقت تک اس وقت تک ہم سب بہتر ہے صبر کریں۔
بات کیبل آپریٹر کو جتوانے سے انکار پر پہنچی تھی۔ لیجیے جناب اس کے بعد قصائی بھائی نے کہا کہ خان جی مجھے الیکشن جتوا کر دیکھیں آپ کو ہمیشہ دیسی بکرے کا گوشت دیا کروں گا۔ محض اس لالچ کی وجہ سے کہ ہمیں دیسی بکرے کا گوشت نصیب ہوا کرے گا۔ ہم نے پورا زور لگایا اور قصائی بھائی الیکشن جیت گیا۔ مگر آپ کو حیرت ہو گی کہ ہمیں ایک دن بھی دیسی بکرے کا گوشت نصیب نہ ہوا۔ پچھلے دنوں ہم نے پہلے دبے لفظوں میں احتجاج کیا اور پھر جب کھل کر احتجاج کیا تو پورا محلہ اکٹھا ہو گیا۔ لوگوں نے سر عام تکرار کی وجہ پوچھی تو ہم سے نہ رہا گیااور ہم نے سب کو بتادیا کہ ہم نے اس وعدے پر اسے الیکشن جتوایا تھا کہ یہ ہمیں بھیڑ کے گوشت کی بجائے دیسی بکرے کا گوشت دیا کرے گا۔ لوگوں نے اسے شرمندہ کیا تو اس نے آہستہ سے کہا۔ اہل محلہ آپ خوامخواہ مجھے میرے ہی پھٹے پر ذلیل کر رہے ہے ہیں حالانکہ آپ کے علم میں ہونا چاہئے کہ میں اسے کیسے دیسی بکرے کا گوشت دے سکتا ہوں کیوں میں نے تو آپ کو ہمیشہ ہی بھیڑ کا گوشت کھلایا ہے۔
بات شعیب بن عزیز کے ایک نئے عوامی شعر سے شروع ہوئی اور بھیڑ کے گوشت پر پہنچ کر ختم ہو گئی۔ بہر حال ہمیں اگر دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے تو ہمیں بہت زیادہ خواب دیکھنے سے تو بہ کرنی ہو گی مگر کیا کر یں۔ ہماری قوم کو تو دن میں بھی خواب دیکھنے کی عادت ہے اور جب کوئی عادت اس قدر پختہ ہو جائے تو اس سے جان چھڑانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔