یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہندوستان میں خلافت تحریک زوروں پر تھی۔ مسلمان جذباتی اور بپھرے ہوئے تھے۔ سب لوگ گاندھی کی قیادت میں چل رہے تھے۔ گاندھی نے حکومت سے عدم تعاون کا فارمولا پیش کردیا تھا۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی ان کے ساتھ تھے۔ اُن دنوں ابھی محمد علی جناح برصغیر کے مسلمانوں کے ناقابل تسخیر لیڈر اور قائداعظمؒ نہیں بنے تھے مگر اُن کی دوربین نگاہیں بہت کچھ دیکھ رہی تھیں۔ گاندھی کی عدم تعاون کی قرارداد منظور کروانے کے لیے 4ستمبر 1920ء کو کلکتہ میں کانگریس کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی سبجیکٹ کمیٹی میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔ مولانا شوکت علی مسلمانوں کو قرارداد کے حق میں ووٹ دینے کا کہہ رہے تھے۔ جناحؒ تن تنہا اٹھے اور قرارداد کی مخالفت کی۔ اس دوران ایک انتہاپسند مسلمان نوجوان میاں جعفر شاہ غصے میں آگے بڑھا اور محمد علی جناحؒ کے ساتھ جسمانی تشدد (Physical Assault) کیا۔ تاہم 1947-48ء میں میاں جعفر شاہ مسلم لیگی ہوگئے تھے اور پاکستان میں وفاقی وزیر بھی رہے۔ انہی دنوں کا ایک اور واقعہ ہے کہ گاندھی کی حمایت بڑھانے کے لیے ناگپور میں مسلمانوں اور ہندوؤں کا ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا۔ محمد علی جناحؒ نے گاندھی کو مخاطب کرکے کہا ”Your way is the wrong way, mine is the right way. The constitutional way is the right way“۔ اس پر مولانا محمد علی جوہر ان پر لپکنے کے انداز میں بولے کہ مسٹر جناح تم آئین کی بہت باتیں کرتے ہو۔ قائداعظمؒ نے اس توہین آمیز رویئے کو بہت محسوس کیا۔ ان کے چہرے پر افسردگی تھی اور وہ خاموش ہوگئے مگر اب تاریخ بتاتی ہے کہ گاندھی نے عدم تعاون کی اُس تحریک میں برصغیر کے
مسلمانوں کو استعمال کیا جس سے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ یہ وہی قائداعظمؒ تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور بعد میں ملک حاصل کرنے کے لیے مثالی سیاست کی اور جب انہیں کامیابی نصیب ہوئی، وہ پاکستان کے بااختیار گورنر جنرل بنے تو تب بھی انہوں نے مثالی سربراہ مملکت ہونے کا ثبوت دیا۔ جیسا کہ کتابوں میں لکھا ہے کہ جب قائداعظمؒ زیارت میں بیمار تھے تو ان کی خدمت کے لیے ایک نرس مقرر کی گئی۔ اُس نرس نے قائداعظمؒ سے درخواست کی کہ اس کے ماں باپ اور بہن بھائی پنجاب میں ہیں جبکہ وہ اکیلی کوئٹہ میں ملازمت کررہی ہے۔ آپ مہربانی کرکے میرا ٹرانسفر پنجاب میں کروا دیں۔ قائداعظمؒ نے سوچا اور کہا کہ یہ معاملہ وزارت صحت کا ہے۔ میں اُن کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ اسی طرح ایک مرتبہ گورنر جنرل قائداعظمؒ اپنے دفتر میں تشریف فرما تھے کہ سیکرٹری نے ایک وزٹنگ کارڈ ان کے سامنے لاکر رکھا۔ انہوں نے اسے پڑھنے کے بعد پھاڑ دیا اور ملاقاتی کو ملنے سے انکار کردیا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ قائداعظمؒ کے بھائی کا وزٹنگ کارڈ تھا مگر قائداعظمؒ نے کارڈ اس لیے پھاڑا کہ اس پر چھپا ہوا تھا ”Brother of Quaid-e-Azam“۔ یہ وہی قائداعظمؒ تھے جنہوں نے اپنے عمل اور قول سے باوقار سیاست کی مثالیں قائم کیں۔ اپنی بات منوانے کے لیے خفیہ معاہدے نہیں کیے اور نہ ہی چور دروازے استعمال کیے۔ ایسی تاریخ ساز شخصیت جو صدیوں میں پیدا ہوتی ہے اس کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا اُس کی ایک مثال لیتے ہیں۔ ایوب خان کے بھائی اور لیاقت علی خان کی کابینہ میں وزیر رہنے والے سردار بہادر خان بتاتے ہیں کہ بابائے قوم قائداعظمؒ محمد علی جناح کا انتقال ہوچکا تھا۔ میت کراچی میں ان کی سرکاری رہائش گاہ میں رکھی ہوئی تھی۔ پورا ملک صدمے اور غم سے آنسو بن چکا تھا مگر اسی شام بھارتی وفد کے اعزاز میں وزیراعظم کی طرف سے ایک اعلیٰ سطحی ڈنر کا اہتمام کیا جارہا تھا جو پہلے سے طے شدہ تھا۔ ڈنر کی عمارت اس بلڈنگ کے بالکل سامنے تھی جہاں قوم کے باپ کی لاش کفن میں لپٹی پڑی تھی۔ سردار بہادر خان نے کہا قائداعظمؒ کے انتقال کی خبر سب کو تھی لیکن وہ ڈنر منسوخ نہ کیا گیا بلکہ کھانے کے دوران وزیر خارجہ سرظفر اللہ اور وزیراعظم لیاقت علی خان ڈائننگ ہال کے ایک کونے میں علیحدہ کھڑے ہوکر گفتگو کررہے تھے اور ساتھ ساتھ ہلکا ہلکا ہنستے بھی جارہے تھے۔ اگلے روز اخبارات میں روتی ہوئی قوم کی خبر کے ساتھ ساتھ ڈنر کی خبر بھی شائع ہوئی۔ سردار صاحب کی اس بات پر غور کریں تو سوال اٹھتا ہے کہ دنیا کے تمام سفارتی آداب اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ اگر کوئی قو م کسی بڑے حادثے سے دوچار ہو جائے تو وہ اپنے طے شدہ سفارتی اجلاس منسوخ کرسکتی ہے مگر یہاں ایسا نہ ہوا۔ یہ وہی قائداعظمؒ تھے جن کے مرنے کے بعد ان کے دیس میں نہ تو ان جیسی سیاست کی گئی اور نہ ہی اپنے شہریوں کے لیے ان جیسا دکھ کسی نے محسوس کیا۔ یہاں رشتے داروں کی پرورش اور قریبی لوگوں کی سفارش کا چلن عام ہوگیا۔ آئین کی بجائے خاندانوں کی حکمرانی قائم ہوگئی۔ آہستہ آہستہ یہاں سے اصلی قائداعظمؒ اور ان کے اصول غائب ہوتے گئے۔ اُن کی جگہ قائداعظم والے نوٹ آگئے، ہرکام انہی کے ذریعے ہونے لگا۔ لوگ قائداعظمؒ محمد علی جناح کو نہیں جانتے بلکہ نوٹوں والے قائداعظم کو جانتے ہیں۔ سابق بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں جناحؒ کو ایک بڑا لیڈر مانا ہے۔ انہیں یہ اعتراف کرنے میں 62 برس بیت گئے لیکن افسوس کہ جس محمد علی جناحؒ کی تعریف جسونت سنگھ نے کی وہ قائداعظمؒ 11ستمبر 1948ء کو مرگئے تھے۔