اسلام آباد: انتخابی اصلاحات کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن میں ٹھن گئی۔ انتخابی ا صلاحات سے متعلق ترامیمی بلز مسترد کر دیا گیا۔ الیکشن کمیشن اعتراضات پر جواب د ینے کی اجازت نہ ملنے پر حکومتی اراکین نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس سے واک آوٹ کر دیا۔
چیئرمین تاج حیدر کی صدارت میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کا اجلاس ہوا، حکومتی اور الیکشن کمیشن اراکین نے کمیٹی اجلاس سے واک آوٹ کر دیا، اپوزیشن کی یکطرفہ ووٹنگ، انتخابی اصلاحات سے متعلق ترامیمی بلز مسترد کر دیئے۔
مشیرپارلیمانی امورڈاکٹر بابراعوان کو الیکشن کمیشن کے اعتراضات پر جواب اور ثمینہ ممتاز کو آن لائن وو ٹنگ کا حق نہ ملنے پر حکومت نے کمیٹی اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ اپوزیشن ارکان نے یکطرفہ ووٹنگ کرکے چھ ووٹ بلز کی مخالفت میں دئیے۔
الیکٹرانک ووٹنگ ،سینیٹ الیکشن اوپن کرانے ،بیرون ملک پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق دینے اور ساٹھ روز میں حلف نہ اٹھانے پر سیٹ خالی ہونے سے متعلق ترامیمی بلز مسترد کردیئے۔
اس سے قبل وفاقی وزیر برائے ریلوے اعظم سواتی نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پیسے پکڑے ہوئے ہیں، پتہ نہیں کیسے الیکٹرانک مشین سے متعلق 37 اعتراضات عائد کردیئے، جواب دینا ہوگا الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کی طرف کیوں نہیں جانا چاہتا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعظم سواتی نے کہا کہ حکومت نے الیکٹرانک مشین الیکشن کمیشن کے بتائے گئے ٹیکنیکل پہلووں کے تحت بنائی۔ الیکشن کمیشن نے پتہ نہیں کیسے 37 اعتراضات عائد کردیے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق تو سارا کام تو خود الیکشن کمیشن نے کرنا ہے، کونسی الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنی ہے، یہ فیصلہ بھی الیکشن کمیشن نے کرنا ہے۔
اعظم سواتی نے کہا کہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی بنائی گئی مشین تو صرف ایک نمونہ ہے، پارلیمان بھی کہہ رہی ہے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کریں، جس بھی ادارے میں کرپشن ہورہی تھی اس میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے بہتری آئی، حکومتی خاتون رکن کی 2 دن کمیٹی میں بے عزتی کی گئی اس لےو وہ آج نہیں آئیں، آج خاتون رکن کو آن لائن لینے کا کہا لیکن نہیں لیا گیا۔
وفاقی وزیر نے سوال اٹھایا کہ بتایا جائے آخر کون ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کرنا چاہتا، عمران خان جہاد کررہے ہیں، حکومت ہر طرح سے الیکشن کمیشن کو امداد دینے کے لےو تیار ہے، وقت آگیا ہے کہ اب الیکشن کمیشن کو جواب دینا ہوگا، الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابات کی طرف کیوں نہیں جانا چاہتا۔
مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان، وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کہنا تھا کہ شاہدخاقان عباسی اینڈ کمپنی سارے معاملے کو متنازع بنا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے الیکشن کمیشن اس وقت اپوزیشن کا ہیڈ کوارٹربن گیا ہے۔ الیکشن کوشفاف بنانے کے لیے ہم ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہتے ہیں، الیکشن کمیشن کی منطق عجیب وغریب ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج الیکشن کمیشن کا رویہ،پارلیمان کے استحقاق کوٹھکرانے کے مترادف ہے، بدقسمتی سے اپوزیشن کے بونوں کی سوچ اپنے کیسزمیں تاریخ لینے تک محدود ہے، اگرپارلیمنٹ مضبوط ہوگی توملکی سیاست بہترہوگی۔ 2018کے الیکشن میں عوام نے عمران خان پراعتماد کا اظہارکیا، تحریک انصاف کے منشورمیں الیکشن کوشفاف بنانے کا وعدہ تھا، عمران خان کی واحد حکومت ہے جس نے شفاف الیکشن کے لیے تجاویز پیش کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون الیکشن کمیشن نہیں، قانون بنانے کا اختیارپارلیمان کے پاس ہے، چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کے ماؤتھ پیس کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں، چیف الیکشن کمشنر نواز شریف سے قریبی رابطے میں رہے ہیں، ان کی نوازشریف سے ذاتی ہمدردی بھی ہوسکتی ہے۔ اگرہمیں چیف الیکشن کمشنرپراعتماد نہیں تووہ الیکشن کیسے کرائیں گے، چیف الیکشن کمشنرچھوٹی، چھوٹی جماعتوں کے آلہ کارنہ بنیں، ای وی ایم پراحمقانہ ابجکشن اورسیاست کی، اگراس طرح سیاست کریں گے توپھررسپانس آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کے الیکشن کے طریقہ کارکا جائزہ لیا گیا، ہم نے اپوزیشن کو الیکشن اصلاحات پر دعوت دی، جہاں اپوزیشن ہار جاتی ہے وہاں دھاندلی کا الزام لگاتی ہے۔ عدالت نے کہا الیکشن کمیشن پر لوگوں کواعتماد نہیں ہے، پوری دنیا کے الیکشن کے طریقہ کارکا جائزہ لیا گیا، ہم نے اپوزیشن کوالیکشن اصلاحات پردعوت دی، جہاں اپوزیشن ہارجاتی ہے وہاں دھاندلی کا الزام لگاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2013 کے انتخاب کے بعد عمران نے پہلی تقریرمیں کہا چارحلقوں کوکھولیں، عمران خان کی تقریرپرکوئی دھیان نہیں دیا گیا تھا، عمران خان نے بہت بڑی تحریک کا آغازکیا تھا، جسٹس ناصرالملک صاحب نے تمام جماعتوں کوسن کرریمارکس دیئے پاکستان میں منصفانہ انتخابات کا طریقہ کارسوفیصد موجود نہیں۔