وفاقی حکومت"پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی" کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس ضمن میں باقاعدہ ایک بل وہ تیار کر چکی ہے۔ مختلف حکومتی اور پالیمانی فارمز پر یہ بل اور اس کے مندرجات زیر بحث بھی آئے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اس بل کا مقصد فقط پاکستانی صحافت اور میڈیا کی اصلاح احوال اور بہتری ہے۔ اس نئی اتھارٹی کے زریعے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو وہ ایک چھتری تلے لانا چاہتی ہے، تاکہ ہر طرح کے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا فریضہ ایک ہی چھت تلے سر انجام دیا جا سکے۔ حکومتی موقف کے قطعی برعکس، صحافتی حلقوں کا موقف ہے کہ حکومت پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو ایک ہی مٹھی میں جکڑنے کا تہیہ کئے بیٹھی ہے۔ کہنا ان کا یہ ہے کہ اس نئی اتھارٹی کے قیام سے میڈیا، جو پہلے ہی بستر مرگ سے لگا بیٹھا ہے، اپنی رہی سہی سانسیں بھی کھو بیٹھے گا۔ میڈیا مالکان، صحافتی تنظیمیں اور کارکنان کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا دم خم تو حکومت پہلے ہی نکال چکی ہے، اس نئی اتھارٹی کے زریعے سوشل میڈیا کے کس بل بھی نکال دئیے جائیں گے۔ اس سارے قضیے میں اپوزیشن جماعتیں، میڈیا اتھارٹی بل کی مخالفت میں صحافتی حلقوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ خود حکومت کی اپنی صفوں میں بھی مجوزہ میڈیا اتھارٹی کے حوالے سے یکسوئی نہیں پائی جاتی۔مثال کے طور پر پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی، جن کی پارٹی مسلم لیگ (ق) وفاق اور پنجاب میں حکومت کی اتحادی جماعت ہے، وہ بھی میڈیا اتھارٹی بل کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
غیر جانبداری کی عینک سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ حکومت خواہ کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو، میڈیا کی آزادی اس کے لئے بے چینی اور اضطراب کا باعث ہوا کرتی ہے۔ڈنڈے کے زور پر حکومتیں کرنے والے ڈکٹیٹر بھی میڈیا کی آزادی سے ہمیشہ خائف ہی رہے۔ سیاسی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو میڈیا کی آزادی انہیں نہایت بھاتی ہے۔ بسا اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ آزادی سے کہیں آگے بڑھ کر، جب میڈیا کے کچھ حلقوں نے اپنی صحافتی اور اخلاقی حدود سے تجاوز کیا، تب اپوزیشن میں بیٹھی جماعت میڈیا کا کاندھا تھپکتی اوراسکا حوصلہ بڑھاتی رہی۔لیکن حکومت میں آتے ہی ایسی جماعتوں کو میڈیا کی جائز اور قابل جواز آزادی بھی کھلنے لگتی ہے۔ حکومتی کارگزاری پر جائز تنقید کرنے والا میڈیا بھی اپنی حدوں سے متجاوز محسوس ہوتا ہے۔بہرحال دیکھایہی گیا ہے کہ کم وبیش ہر حکومت میڈیا کو اپنے اپنے طریقے سے قابو کرنے، اسکے ہاتھ پیرباندھنے، اور اسکی زبان بندی کے جتن کرتی ہے۔
جہاں تک میڈیا کی آزادی کی بات ہے تو اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔مہذب ملکوں میں اور جمہوری معاشروں میں میڈیا کی آزادی کو آکسیجن کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ صرف صحافتی آزادی نہیں،بلکہ ہر طرح کے اظہار رائے کی آزادی بے حد اہم سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ ٹوٹی پھوٹی ہی سہی، جمہوریت یہاں موجود ہے۔ لہذا اظہار رائے کی آزادی سماج کی ضرورت ہے۔تاہم کچھ برس سے نہایت جید صحافی، جن کی عمریں صحافت کے دشت کی سیاہی میں گزری ہیں، وہ شکوہ کناں دکھائی دیتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں آزادی رائے کے لئے گنجائش سکڑتی چلی جا رہی ہے۔ میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ جس صحافتی مجلس میں بیٹھو کالم اور خبریں رکنے، ٹی۔وی پروگرام بند ہونے کے نت نئے قصے سننے کو ملتے ہیں۔ پریس ایڈوائس کے نام سے موصول ہونے والے فرمان شاہی کے تذکرے بھی معمولات صحافت کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں نہایت نامور،غیر جانبدار اور نظریاتی صحافیوں کو نوکریوں سے فارغ کرکے گھروں میں بٹھا دیا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سے اب بیکار سے بیگار بھلی کے مصداق، یوٹیوب پر اپنے صحافتی فرائض سر انجام دیتے ہیں۔
ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو صحافت کیلئے بدترین اور بے حد خطرناک ملک سمجھے جاتے ہیں۔ چند ماہ پہلے معروف ادارے " فریڈم نیٹ ورک" نے ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ میں پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد کو صحافیوں کے لئے سب سے غیر محفوظ اور خطرناک شہر قراردیا گیا ہے۔رپورٹ بتاتی ہے کہ شدید سنسر شپ، صحافیوں کے قتل، دھمکیوں، دباو، ہراساں کرنے جیسے واقعات کے باعث پاکستانی میڈیا کے گرد شکنجہ سخت ہو رہا ہے۔یہ "تمغہ "بھی ہمارے گلے میں پڑا ہوا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے قاتلوں کو سزا سے سو فیصد استثنیٰ(Impunity) حاصل ہے۔ کسی کا گلا کاٹ دیں، کسی کا سر پھاڑ دیں، کسی کو اغوا کر لیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کسی مجرم کی پکڑ کا رواج نہیں۔ ا ندازہ کیجئے کہ 2021 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 180 ممالک کی فہرست میں 145 ویں نمبر پر ہے۔یورپی یونین نے بھی کئی سال سے ہمیں کان سے پکڑ کر فاٹف کے کٹہرے میں کھڑاکر رکھا ہے۔ گرے لسٹ میں رہنے کی ایک وجہ ہمیں یہ بتائی جاتی ہے کہ ہمارے ملک میں آزادی اظہار رائے کا انتہائی فقدان ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی صحافت کا قبلہ درست ہونا چاہیے۔ نہایت ضروری ہے کہ آزادی اظہار رائے اخلاقی حدود کی پابند ہو۔ یہ بھی درست ہے کہ یہاں پر فیک نیوز کی وبا قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ضروری ہے کہ غلط خبریں پھیلانے والوں کی کڑی گرفت کی جائے۔سمجھنے کی بات مگر یہ ہے کہ ان سب امور کے لئے ہمارے ہاں قوانین موجود ہیں اور ادارے بھی۔ پاکستان کا شمار دنیا کے کثیر القوانین) (highly legislated ملکوں میں ہوتا ہے۔ ہر ہر معاملے کیلئے یہاں قوانین موجود ہیں۔ اداروں کا بھی ایک انبوہ کثیر ہے۔ غریب عوام کی ٹیکس منی پر جو پرورش پاتا ہے۔ میڈیا کے حوالے سے بھی قوانین اور ادارے(صفحہ3پر بقیہ نمبر1)
موجود ہیں۔ پرنٹ میڈیا کے" پریس کونسل آف پاکستان" موجود ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے لئے" پیمرا " موجود ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کے لئے "سائبر کرائم کا قانون" موجود ہے۔ فلم کیلئے "سنسر بورڈ "موجو د ہے۔ اسکے علاوہ ہتک عزت(defamation) کے قوانین بھی موجود ہیں۔ ان تمام قوانین اور اداروں کی موجودگی میں کسی نئی میڈیا اتھارٹی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ حکومت اگر یہ تمام ادارے ایک چھتری اور چھت تلے لے آتی ہے تو اس سے کیا فرق پڑ جائے گا؟ مجوزہ قانون میں کئی سال قید کی سزا، بھاری بھرکم جرمانے، اور تکنیکی آلات کی قرقی جیسی شقیں خاص طور پر میڈیا مالکان، صحافیوں اور یو ٹیوبرز وغیرہ کیلئے اضطراب کا باعث ہیں۔
حکومت کو اگر واقعتا میڈیا کی اصلاح مقصود ہے تو پہلے سے موجود قوانین کے نفاذ کے لئے اپنی توانائی صرف کرئے۔ اداروں کی مضبوطی اور خود مختاری میں اپنا حصہ ڈالے۔ میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے اور فوری سزائیں دینے کا نظام مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز کرئے۔ یہ بات بھی ہر سیاسی جماعت کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان رہتے ہوئے تو میڈیا کواپنی کنیز بنانے جیسے اقدامات نہایت بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ مگر جب اپوزیشن جماعت بن کر سیاست کرنا پڑتی ہے تو یہی میڈیا اور اسکی آزادی ان سیاسی جماعتوں کی سیاست کو سہارا دینے کا باعث بنتا ہے۔
ایک اور میڈیا اتھارٹی کیوں؟
11:23 AM, 10 Sep, 2021